کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 428
تاکہ وہ پاکیزہ ہو کر حشر میں کھڑا ہو۔ جس کسی کے لیے ایسا نہ کریں اور اس کا مواخذہ آخرت پر چھوڑ دیں تو یہ بھی عین عدل ہے، لیکن گناہ گاروں اور شرم ساروں کے حال پر افسوس ہے۔ ہاں اگر وہ گناہ گار اہلِ اسلام سے ہے تو اس کا انجام رحمت سے ہے اور وہ عذاب ابدی سے محفوظ ہے، یہ بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ﴿رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا اِِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾۔ 15۔ روزِ قیامت حق ہے۔ اس روز آسمان، ستارے، زمین، پہاڑ، سمندر، حیوان، نباتات اور معدنیات سب کے سب معدوم و ناچیز ہو جائیں گے۔ آسمان شق ہو جائیں گے اور ستارے منتشر ہو کر گر جائیں گے۔ زمین اور پہاڑ پرا گندہ ذرات ہو جائیں گے۔ یہ تمام توڑ پھوڑ اور فنا کا تعلق نفخۂ اولیٰ سے ہے۔ نفخۂ ثانیہ (دوسرے صور) پر لوگ قبروں سے اٹھ کر محشر کی طرف روانہ ہوں گے۔ فلاسفہ آسمانوں اور ستاروں کے نیست و نابود ہونے کو نہیں مانتے اور ان کا فانی اور فاسد ہونا جائز نہیں سمجھتے، وہ ان کو ازلی اور ابدی کہتے ہیں۔ اس امر کے باوجود ان میں سے متاخرین اپنی بے وقوفی کی وجہ سے اپنے آپ کو زمرہ اہلِ اسلام میں شمار کرتے ہیں اور اسلام کے بعض احکام بھی بجا لانے کا دعوی کرتے ہیں۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اہلِ اسلام ان کی ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور جراَت و دلیری کے ساتھ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بعض مسلمان ان لوگوں میں سے بعض کے اسلام کو کامل جانتے ہیں اور اگر کوئی ان پر طعن و تشنیع کرے تو اس کو بہت برا سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ نصوصِ قطعیہ کے منکر ہیں اور انبیا ۔علیہم الصلوات والتسلیمات۔ کے اجماع کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ * وَاِِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ﴾[التکویر: ۱،۲] [جب آفتاب بے نور ہو جائے گا اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے] نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ* وَاَذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ﴾[الانشقاق: ۱، ۲] [جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے رب کا حکم سن لے گا اور وہ اسی لائق ہے]