کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 427
ہے اور یہ غیر کی ملک میں تصرف نہیں ہے کہ اس میں ظلم و ستم کا شائبہ ہو، بر خلاف ہماری املاک کے جوفی الحقیقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی املاک ہیں۔ ان املاک میں ہمارے تمام تصرفات سوائے ان کے جو جائز ہیں، عین ستم ہیں، کیونکہ صاحبِ شرع نے بعض مصالح کی بنا پر ان املاک کی نسبت ہماری طرف کر دی ہے، لیکن حقیقت میں وہ سب اسی کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا ان میں ہمارا تصرف اسی قدر جائز ہے جس قدر بالکلیہ مالک حق تعالیٰ نے اس میں تصرف کی اجازت دی اور مباح فرمایا، کیونکہ ان انبیا۔ علیہم الصلوات والتسلیمات۔ نے حق جل و علا کے احکام کے بارے میں خبریں دی ہیں اور جو احکام بیان فرمائے ہیں وہ سب سچے اور واقعے کے مطابق ہیں۔ علما نے احکامِ اجتہادیہ میں ان انبیا ۔علیہم الصلوات والتسلیمات و التحیات۔ سے اگرچہ خطا کو تجویز کیا ہے، لیکن خطا کے برقرار رکھنے کو ان کے حق میں جائز نہیں رکھا اور فرمایا ہے کہ وہ خطا پر جلدی متنبہ کر دیے جاتے ہیں اور ان کی خطا کا تدارک صواب سے کر دیا جاتا ہے، لہٰذا اس غلطی کا کوئی شمار و اعتبار نہیں۔ 13۔ قبر کا عذاب خاص طور پر کافروں کے لیے اور بعض گناہ گار اہلِ ایمان کے لیے حق ہے کیونکہ مخبر صادق ۔علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات۔ نے اس کی خبر دی ہے۔ 14۔ قبر میں مومنوں اور کافروں سے منکر نکیر کا سوال بھی حق ہے، کیونکہ دنیا اور آخرت کے درمیان قبر ایک برزخ ہے۔ اس کا عذاب بھی ایک وجہ سے دنیاوی عذاب سے مناسبت رکھتا ہے اور ختم ہونے والا ہے اور دوسری وجہ سے اس کو عذابِ اخروی کے ساتھ مناسبت ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں آخرت کے عذابوں میں سے ہے۔ آیتِ کریمہ میں یوں آیا ہے: ﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا﴾[المؤمن: ۴۶] [وہ صبح و شام آگ (دوزخ) پر پیش کیے جاتے ہیں] یہ آیت عذابِ قبر سے متعلق نازل ہوئی ہے اور اسی طرح قبر کی راحت بھی دوحیثیتیں رکھتی ہے۔ وہ شخص بہت ہی سعادت مند ہے جس کی لغزشوں اور گناہوں کو اللہ تعالیٰ کمال کرم اور مہربانی سے معاف فرما دیں اور ہر گز اس سے مواخذہ نہ کریں اور اگر مقامِ مواخذہ میں آ جائے تو بھی اپنی کمالِ رحمت سے دنیاوی آلام و مصائب کی تکالیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ قرار دے دیں۔ اگر کچھ باقی رہ جائے تو قبر کی تنگی اور ان تکلیفوں کو جو اس مقام میں مقرر ہیں، ان سے کفارہ کر دیں