کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 426
کرو گے تو بہشت میں جاؤ گے اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو دوزخ میں جاؤ گے، ان کو ایسے امور کی کیوں تکلیف دیتے ہیں اور ان کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ کھائیں پئیں اور سوئیں اور جس طرح چاہیں اپنے طور پر زندگی بسر کریں؟ یہ منکرین بد نصیب اور بے عقل یہ نہیں جانتے کہ ازروے عقل شکرِ منعم ادا کرنا واجب ہے اور یہ تکلیفاتِ شرعیہ اس شکر کے بجا لانے کا بیان ہے۔ لہٰذا تکلیفِ شرعی عقل کی رو سے بھی واجب ہے اور اسی طرح نظامِ عالم تکلیفاتِ شرعیہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو شرارت و فساد کے سوائے کچھ ظہور میں نہ آتا اور ہر بو الہوس دوسرے کے جان و مال میں دست درازی کرتا اور خباثت و شرارت سے پیش آتا، اس طرح خود بھی ضائع ہوتا اور دوسروں کو ضائع کرتا۔ ۔عیاذا باللّٰہ سبحانہ۔ اگر سختی اور شرعی موانع حائل نہ ہوتے تو معلوم نہیں کہ کس قدر شرارت و فساد ظاہر ہوتا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُ۔ٓولِی الْاَلْبَابِ﴾[البقرۃ: ۱۷۹] [اور تمھارے لیے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے] اگر چوبِ حاکم نباشد زپے کند زنگئے مست در کعبہ قے [اگر چوبِ حاکم کا ہوتا نہ خوف۔ شرابی تو کعبے میں کر دیتا قے] یا ہم یہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ زمین و آسمان اور ہر چیز کا خود مختار مالک ہے اور تمام بندے اس کے مملوک اور غلام ہیں۔ لہٰذا جو حکم و تصرف وہ ان میں فرماتا ہے وہ عین خیر و صلاح ہے اور ظلم و فساد کی آمیزش سے منزہ و مبرا ہے، اس کا ارشاد ہے: ﴿ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ﴾[الأنبیائ: ۲۳] [جو کچھ وہ کرتا ہے، اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا] کرا زہرۂ آنکہ از بیم تو کشاید زباں جز بہ تسلیم تو [تیرے خوف سے کس کو ہے حوصلہ کہ تسلیم ورضا سے ہٹ کے کھولے زباں] اگر وہ سب کو دوزخ میں ڈال دے اور دائمی عذاب کا حکم فرمائے تو کسی اعتراض کی کیا مجال