کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 425
کے لوازمات میں سے ہیں، اس کی عقل سے مکمل طور پر جدا نہیں ہوتے اور غلطی و خطا جو اس جہان کا خاصّا ہے اس سے جدا نہیں ہوتے۔ لہٰذا عقل اعتماد کے لائق نہیں ہے، اس سے ماخوذ احکام وہم اور تصرفِ خیال کے غلبے سے محفوظ نہیں رہتے اور نسیان و خطا کے گمان کی آمیزش سے محفوظ نہیں رہتے، بر خلاف فرشتے کے وہ ان اوصاف سے پاک اور ان رذائل سے مبرا ہے تو لازماً وہ اعتماد کے قابل ہے اوراس سے ماخوذ احکام وہم و خیال کی آمیزش اور نسیان و خطا کے گمان سے محفوظ ہیں۔ بعض اوقات وہ علوم جو روحانی تلقی سے اخذ کیے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے متعلق تبلیغ کے دوران میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قویٰ و حواس کے ساتھ بعض مقدماتِ مسلمہ غیر صادقہ جو وہم و خیال یا کسی اور ذریعے سے حاصل ہوئے ہیں، بے اختیار ان علوم کے ساتھ اس طرح غلط ملط ہو جاتے ہیں کہ اس وقت ہر گز تمییز ممکن نہیں رہتی اور دوسرے وقت میں ایسا ہوتا ہے کہ اس تمییز کا علم دے دیا جاتا ہے اور کبھی نہیں دیا جاتا، لہٰذا لازمی طور پر وہ علوم ان مقدمات کے مل جانے کی وجہ سے کذب کی ہیئت پیدا کر لیتے ہیں اور اعتماد کے قابل نہیں رہتے، یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصفیے اور تزکیے کا حاصل ہونا اعمالِ صالحہ کے بجا لانے پر موقوف ہے جو مرضیاتِ مولیٰ سبحانہ ہیں اور یہ معنی بعثتِ انبیا سے وابستہ ہیں جیسا کہ بیان ہو چکا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ بعثت کے بغیر تصفیے اور تزکیے کی حقیقت میسر نہیں ہوتی اور وہ صفائی جو کفار اور اہلِ فسق کو حاصل ہوتی ہے وہ نفس کی صفائی ہے نہ کہ قلب کی صفائی۔ نفس کی صفائی سوائے گمراہی کے کچھ نہیں بڑھاتی اور سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بعض غیبی امور کا کشف جو نفس کی صفائی کے وقت کفار اور اہلِ فسوق کو حاصل ہو جاتا ہے وہ استدراج ہے جس سے مقصود اس جماعت کا نقصان ہے۔ اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ تکلیف شرعی جو بعثتِ انبیا کی راہ سے ثابت ہوئی ہے وہ بھی رحمت ہی ہے، نہ کہ جس طرح تکلیفِ شرعی کے منکروں یعنی ملحدوں اور زندیقوں نے گمان کیا ہے اور تکلیفِ شرعی کو مصیبت جان کر غیر معقول اور نا پسند قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ کون سی مہربانی ہے کہ بندوں کو امورِ شاقہ کی تکلیف دی جائے، پھر ان سے کہا جائے کہ اگر تم اس تکلیف کے مطابق عمل