کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 424
کے لیے جس کے واسطے قِدم لازم ہے، اس کے اسما و صفات کا اطلاق کیا جائے اور نامناسب سے پر ہیز کیا جائے۔ بعض اوقات ہماری اندھی عقل اپنے نقص کی وجہ سے کمال کو نقص جانتی ہے اور نقص کو کمال سمجھنے لگتی ہے۔ فقیر کے نزدیک یہ مناسب و نا مناسب کا امتیاز تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد بخت ہے جو نا مناسب امور کو اللہ تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کر دے اور ناشائستہ چیزوں کو اس کے ساتھ نسبت دے۔ یہ بعثتِ انبیا ہی کا کارنامہ ہے جس نے حق کو باطل سے جدا کر دیا۔ بعثت ہی کی وجہ سے غیر مستحقِ عبادت اور مستحقِ عبادت کے درمیان تمییز ہوئی۔ یہ بعثت ہی ہے جس کے ذریعے حق جل و علا کے راستے کی طرف دعوت دی جاتی ہے جو بندوں کو مولیٰ جل سلطانہ کے قرب اور وصل کی سعادت تک پہنچاتی ہے۔ بعثت ہی کے وسیلے سے مولیٰ جل شانہ کی مرضیات کی اطلاع میسر ہوتی ہے۔ بعثت ہی کے طفیل اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ملک میں تصرف کے جواز و عدم جواز کی تمییز حاصل ہوتی ہے، بہر حال بعثت کے فوائد کی مثالیں کثرت سے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ انبیا کی بعثت سرا پا رحمت ہے اور جو شخص اپنے نفسِ امارہ کا مطیع ہو گیا اور شیطان لعین کے حکم سے بعثت کا انکار کرتا ہے اور بعثت کے تقاضوں کے مطابق عمل نہیں کرتا تو اس میں بعثت کا کیا گناہ اور بعثت کس طرح رحمت نہ ہو گی؟ سوال: ہر چند عقل اپنی ذات کی حد تک احکامِ الٰہی جل شانہ کی بجا آوری میں ناقص و نا تمام ہے، لیکن ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ تصفیہ اور تزکیہ حاصل ہونے کے بعد عقل کو مرتبۂ وجوبِ تعالیٰ و تقدس کے ساتھ ایک بے تکیف مناسبت اور اتصال پیدا ہو جائے کہ جس مناسبت اور اتصال کے سبب وہ احکام کو وہاں سے اخذ کر لے اور اس کو اس بعثت کی جو فرشتے کے واسطے سے ہے، کوئی حاجت نہ رہے۔ جواب: اگرچہ عقل یہ مناسبت اور اتصال پیدا کر لے، لیکن وہ تعلق جو اس کا جسمانی بدن کے ساتھ ہے وہ بالکل ختم نہیں ہوتا اور کامل طور پر علاحدگی حاصل نہیں ہوتی، لہٰذا قوتِ واہمہ ہمیشہ دامنگیر رہتی ہے اور قوتِ متخیلہ ہرگز اس کا خیال نہیں چھوڑتی قوتِ غضبیہ و شہویہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے اور حرص و لالچ کے رذائل ہر وقت ا سکے ہم نشین رہتے ہیں۔ سہو و نسیان جو نوعِ انسانی