کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 423
تنزیہ کے مرتبے میں مقید نہ کرتے اور تشبیہ کے بھی قائل ہو جاتے اور اسی رویت کو تجلی صوری سمجھ لیتے تو ہرگز رویت کا انکار نہ کرتے اور محال نہ سمجھتے۔ یعنی ان کا انکار بے جہتی اور بے کیفی کی وجہ سے ہے جو تنزیہ کے مرتبے کے ساتھ مخصوص ہے، برخلاف اس تجلی کے جس میں جہت اور کیف ملحوظ ہے۔ یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ آخرت کی رویت کو تجلی صوری کی طرح بیان کرنا فی الحقیقت خاص رویت کا انکار کرنا ہے، کیونکہ وہ تجلی صوری اگرچہ دنیاوی تجلیاتِ صوریہ سے مختلف ہے، لیکن حق تعالیٰ کی رویت نہیں ہے۔ یراہ المؤمنون بغیر کیف و إدراک وضرب من مثال [جنتی کو دیدِ حق کی ہو گی سیر، کیف و ادراک اور مثالوں کے بغیر] 12۔ انبیا ۔علیہم الصلوات والتسلیمات۔ کی بعثت تمام جہان کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اگر ان بزرگوں کے وجود کا وسیلہ نہ ہوتا تو ہم جیسے گمراہوں کو واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف کون ہدایت فرماتا؟ ہمارے اَفہامِ نا تمام ان بزرگوں کی اتباع کے بغیر اس معاملے میں عاجز و بے بس ہیں۔ گر نہ ہوتی ذات پاک انبیا حق سے باطل کس طرح ہوتا جدا بے شک عقل اگرچہ ایک حجت ہے، لیکن یہ ایک نا تمام حجت ہے جو مرتبہ بلوغ تک نہیں پہنچی ہے۔ دلیلِ کامل انبیا۔علیہم الصلوات والتسلیمات۔ کی بعثت ہے جس پر آخرت کا دائمی عذاب و ثواب وابستہ ہے۔ سوال: جب آخرت کا دائمی عذاب بعثت پر موقوف ہے تو پھر بعثت کو رحمتِ عالمیان کہنے کا کیا معنی ہو گا؟ جواب: بعثتِ انبیاءعلیہم السلام عین رحمت ہے، کیونکہ یہ واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات و صفات کی معرفت کا سبب ہے جس میں دنیا و آخرت کی سعادتیں ہیں۔ اسی بعثت کی بدولت معلوم ہو گیا کہ فلاں چیز حق تعالیٰ کی بار گاہ قدس کے مناسب ہے اور فلاں نامناسب، کیونکہ ہماری لنگڑی اور اندھی عقل امکان و حدوث کے داغ سے داغ دار ہے۔ وہ کیا سمجھے کہ اس حضرتِ وجوب