کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 421
شیخ محی الدین رحمہ اللہ اور ان کے متبعین کے کلام سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان و عمل صالح اسم الہادی کے پسندیدہ ہیں، اسی طرح کفر و معاصی بھی اسم المضل کے پسندیدہ ہیں۔ شیخ کی یہ بات بھی اہلِ حق کے خلاف ہے اور ایجاب کی طرف میلان رکھتی ہے جو رضا کا منشا ہوتی ہے، جیسا کہ کہتے ہیں کہ آفتاب کا کام روشنی پھیلانا ہے اور اس میں اس کی مرضی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قدرت و ارادہ عطا کیا ہے اور وہ اپنے اختیار سے اپنے افعال کا کسب کرتے ہیں۔ افعال کا پیدا کرنا اللہ کی طرف منسوب ہے اور ان افعال کا کسب بندوں کی جانب منسوب ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عادت اسی طرح جاری ہے کہ بندہ جب اپنے فعل کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فعل کو پیدا کر دیتا ہے، جبکہ بندے کا فعل اپنے اختیار سے صادر ہوتا ہے۔ جنھوں نے یہ کہا ہے کہ بندے کا اختیار کمزور اور ضعیف ہے، اگر تو انھوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قوتِ اختیار کے اعتبار سے اس بندے کے اختیار کو ضعیف کہا ہے تو مسلم ہے اور اگر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ جس کام کے کرنے میں اس کو مامور کیا گیا ہے وہ قوت و اختیار کافی نہیں ہے، تو یہ بات صحیح نہیں، پس بیشک اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ایسے کام کی تکلیف نہیں دیتا جو بندے کی وسعت سے باہر ہو، بلکہ وہ تو آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور تنگی کا ارادہ نہیں کرتا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ چند روزہ زندگی کے فعل پر دائمی عذاب کا مقرر کرنا حق تعالیٰ کے حوالے اور سپرد ہے، جس نے کفرِ موقت کی سزا اس کے اعمال کے موافق عذابِ مخلّد کی صورت میں عطا فرمائی اور بہشت اور جو کچھ اس میں ہے، زندگی بھر کے ایمان کے ساتھ اسے وابستہ کر دیا۔ ﴿ ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ﴾[الأنعام: ۹۶] [یہ اس زبردست غالب، سب کچھ جاننے والے کا مقرر کردہ اندازہ ہے] اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی توفیق سے اس قدر تو ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو ظاہری اور باطنی نعمتوں کا دینے والا اور آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جس کی بار گاہِ قدس کے لیے ہر قسم کی بزرگی اور کمال ثابت ہے، اس کی نسبت کفر اختیار کرنے کی سزا بھی ایسی ہی ہونی چاہیے جو سخت ترین سزاؤں میں سے ہو اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنا ہے۔ اسی طرح اس منعم بزرگ و برتر پر ایمان بالغیب لانا اور نفس و شیطان کی مزاحمت کے باوجود اس کو راست گو جاننے کی جزا بھی ویسی ہی ہونی چاہیے جو