کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 420
اللہ تعالیٰ نے ان کی اس معرفت کو پسند فرما کر اس بات کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا: ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾[الأنفال: ۶۴] [اے نبی! آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ مومنین بھی جو آپ کی اتباع کرتے ہیں] [1] باقی رہا یہ کہ اسباب کی تاثیر روا ہے، تو بعض اوقات اللہ تعالیٰ اسباب میں بھی تاثیر فرما دیتا ہے تاکہ وہ موثر ہو جائیں اور بعض اوقات ان میں تاثیر پیدا نہیں فرماتا، لہٰذا ناچار اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم روزمرہ اسباب میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی ان اسباب پر مسببات کا وجود مرتب ہوتا ہے اور کبھی کوئی اثر ان سے ظاہر نہیں ہوتا۔ اسباب کی تاثیر سے مطلقاً انکار کرنا لغو و باطل ہے۔ تاثیر کو ماننا چاہیے، لیکن اس تاثیر کو بھی اس کے سبب کی طرح اللہ تعالیٰ کی ایجاد سے جاننا چاہیے۔ فقیر کی رائے اس مسئلے میں یہی ہے، واللّٰہ سبحانہ الملھم۔ اس بیان سے واضح ہو گیا کہ اسباب کا واسطہ توکل کے منافی نہیں، جیسا کہ ناقصوں نے خیال کیا ہے، بلکہ اسباب میں توسط کا خیال کرنا کمالِ توکل ہے، جیسا کہ یعقوب ۔علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام۔ نے اسباب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے معاملے کو حق جل و علا کے سپرد کرنے کو توکل فرمایا: ﴿ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ﴾[یوسف: ۶۷] [اسی پر میں نے توکل کیا اور اسی پر توکل کرنے والوں کو توکل (بھروسا) کرنا چاہیے] 10۔ اللہ تعالیٰ خیر و شر کا ارادہ کرنے والا بھی ہے اور دونوں کا پیدا کرنے والا بھی، لیکن وہ خیر سے راضی ہوتا ہے اور شر سے ناراض۔ ارادے اور رضا کے درمیان یہ ایک بڑا باریک فرق ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اہلِ سنت کو ہدایت عطا فرمائی ہے۔ باقی تمام فرقے اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے معتزلہ نے بندے کو اپنے افعال کا خالق کہا ہے اور کفر و معاصی کی ایجاد کو اس سے منسوب کیا ہے۔
[1] محققین موحدین کے نزدیک حرف ’’مَنْ‘‘ کا کاف پر عطف ہے نہ کہ اسم جلالہ پر۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ اس کے باوجود اسباب کا توسط توکل کے منافی نہیں ہے۔ گفت پیغمبر بآواز بلند بر توکل زانوے اشتر بہ بند [پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ببانگ دہل کہا: اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کرو] [مولف رحمہ اللہ ]