کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 419
بلکہ اس کی جمادیت کی طرف نظر کرنے کے لحاظ سے اس کا وہ فعل فاعلِ حقیقی کے وجود پر دلیل ہو گیا۔ پس یہاں بھی اسی طرح ہے۔ البتہ اس بے وقوف کے فہم میں جماد کا فعل فاعلِ حقیقی کے فعل کا روپوش بن گیا جس نے اپنی حد درجہ بے وقوفی کی وجہ سے جمادِ محض کو اس ظاہری فعل کے سبب صاحبِ قدرت جان لیا ہے اور فاعلِ حقیقی کا منکر ہو گیا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ﴾[البقرۃ: ۲۶] [وہ اس کے ساتھ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور ا س کے ساتھ بہتوں کو ہدایت دیتا ہے] یہ معرفت مشکاتِ نبوت سے مقتبس ہے، لیکن ہر شخص کی فہم اس تک نہیں پہنچتی۔ ایک جماعت اس کمال کو اسباب دور کرنے میں معاون جانتی ہے۔ شروع ہی سے چیزوں کو اسباب کے بغیر رفع کرنے میں حکمت ختم ہو جاتی ہے جس کے ضمن میں بہت سی مصلحتیں مد نظر ہیں۔ ارشاد ہے: ﴿ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا ﴾[آل عمران: ۱۹۱] [اے ہمارے رب! تو نے یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا] انبیا ۔علیہم الصلوات والتسلیمات۔ بھی اسباب کی رعایت کرتے ہیں اور باوجود اس رعایت کے اپنے کام کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مراعات سے جانتے ہیں، جیسا کہ یعقوب ۔علی نبیّنا و علیہ الصلاۃ والسلام۔ نے نظرِ بدلگ جانے کے خیال سے اپنے لڑکوں کو وصیت فرمائی تھی: ﴿ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ﴾ [یوسف: ۶۷] [اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا] یعقوب علیہ السلام نے اس احتیاطی تدبیر کی رعایت کے باوجود اپنے حکم کو اللہ جل و علا کے سپرد کر کے فرمایا: ﴿ وَ مَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ﴾[یوسف: ۶۷] [اور میں تم سے اللہ کی طرف سے (آنے والی) کوئی چیز نہیں ہٹا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں]