کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 417
تاریکی سے ہم کو نجات دے] ان ہی ایام میں میرے فرزند محمد معصوم نے ’’جواہر شرح مواقف‘‘ کو پورا کیا ہے۔ اثنائے سبق میں ان بے وقوفوں (فلاسفہ) کی برائیاں واضح طور پر سامنے آئیں اور ان کی وجہ سے بہت فائدے مرتب ہوئے۔ ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لَآ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ لَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ﴾[الأعراف: ۴۳] [سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی، بلاشبہہ یقینا ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے] شیخ محی الدین ابنِ عربی رحمہ اللہ کی بعض عبارتیں بھی ایجاب کی طرف ناظر ہیں اور قدرت کے معنی میں فلسفے کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں کہ وہ اس کے ترک کی صحت قادر (حق تعالیٰ) سے تجویز نہیں کرتے اور فعل کی جانب کو لازم جانتے ہیں۔ عجب معاملہ ہے کہ شیخ محی الدین مقبولین میں سے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے اکثر علوم جو اہلِ حق کی آرا کے مخالف ہیں خطا اور نا درست ظاہر ہوتے ہیں، شاید ان کو خطاے کشفی کے باعث معذور رکھا گیا ہے اور خطاے اجتہادی کی طرح ان سے ملامت دُور کر دی گئی ہے۔ شیخ محی الدین کے حق میں فقیر کا اعتقاد یہی ہے کہ ان کو مقبولین میں سے جانتا ہے اور ان کے ان علوم کو جو اہلِ حق کے مخالف ہیں، خطا اور ضرر رساں دیکھتا ہے۔ اس گروہِ صوفیہ کے بعض لوگ ایسے ہیں کہ شیخ (موصوف) کو طعن و ملامت بھی کرتے ہیں اور ان کے علومِ مخالفہ کو بھی غلط اور نادرست سمجھتے ہیں۔ اس گروہ کے بعض لوگ شیخ موصوف کی تقلید اختیار کر کے ان کے تمام علوم کو درست جانتے ہیں اور دلائل و شواہد سے ان علوم کی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ہر دو فریق نے افراط و تفریط کا راستہ اختیار کیا ہے اور میانہ روی سے دور ہو گئے ہیں۔ شیخ موصوف کو، جو اولیائے مقبولین میں سے ہیں، خطاے کشفی کے باعث کس طرح رد کر دیا جائے اور ان کے علوم کو جو صحت و صواب سے دور ہیں اور اہلِ حق کی رائے کے مخالف ہیں، تقلید کی وجہ سے کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے۔ پس حق اسی میانہ روی میں ہے جس کی توفیق اللہ سبحانہٗ نے