کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 416
سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ کیا ہی بے خرد اور کتنے بے وقوف ہیں۔ ان سے بھی زیادہ بے وقوف اور احمق وہ شخص ہے جو ان کو دانا سمجھتا اور عقلمند جانتا ہے۔ ان کے مرتب کردہ علوم میں سے ایک علم ہندسہ ہے، جو محض لا یعنی، بے ہودہ اور لا طائل ہے۔ بھلا مثلث کے تینوں زاویوں کا دو زاویۂ قائمہ کے برابر ہونا کس کام آئے گا؟ شکلِ عروسی اور مامونی، جو ان کے نزدیک بڑی مشکل اور جانکاہ ہے، کس غرض کے لیے ہے؟ علمِ طلب و نجوم اور علم تہذیبِ اخلاق جو ان کے تمام علوم میں سے بہترین علوم ہیں، انھوں نے سابقہ انبیا ۔علی نبینا وعلیہم الصلوات والتسلیمات۔ کی کتابوں سے چُرا کر اپنے باطل اور بے ہودہ علوم کو رائج کیا ہے، جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’المنقذ عن الضلال‘‘ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔ اہلِ ملت اور انبیا ۔علیہم الصلاۃ والسلام۔ کے متبعین اگر دلائل و براہین میں غلطی کریں تو کچھ ڈر نہیں، کیونکہ ان کے کام کا مدار انبیا ۔علیہم الصلاۃ والسلام۔ کی تقلید پر ہے اور اپنے مطالبِ عالیہ کے ثبوت کے دلائل و براہین کو صرف بطورِ تبرع اور بطورِ احسان لاتے ہیں۔ یہی تقلید ان کے لیے کافی ہے، بر خلاف ان بد بختوں کے جو تقلید سے نکل کر صرف دلائل کے ساتھ اپنے مطالب کو ثابت کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ضلوا فأضلوا [یہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا]۔ عیسیٰ ۔علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام۔ کی نبوت کی دعوت جب افلاطون کو پہنچی جو ان بدنصیبوں کا سب سے بڑا سردار ہے تو اس نے کہا: نحن قوم مھتدون لا حاجۃ بنا إلی من یھدینا۔ [ہم ہدایت یافتہ قوم ہیں اور ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں ہے جو ہم کو ہدایت دے] اس بے وقوف کو چاہیے تھا کہ ایسے شخص کو جو مردوں کو زندہ کر دیتا ہے، مادر زاد اندھے کو بینا اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہے، جو ان کی حکمت کے قانون سے نا ممکن ہے، یہ پہلے ان کو دیکھتا اور ان کے حالات دریافت کرتا، پھر جواب دیتا۔ دیکھے بغیر جواب دینا کمال درجہ دشمنی اور کمینہ پن ہے۔ فلسفہ چوں اکثرش باشد سَفہ پس کُلِّ آں ہم سَفَہ باشد کہ حکمِ کل حکمِ اکثر است [فلسفہ اکثر سفہ ہے، بس سفہ۔ کُل کا حکم آخر رہے اکثر کا حکم] نجانا اللّٰہ سبحانہ عن ظلمات معتقداتھم السوئ۔ [اللہ سبحانہٗ ان کے برے عقائد کی