کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 413
4۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور افعال میں تغیر و تبدل کو کوئی راہ نہیں ہے۔ ’’فسبحان من لا یتغیر بذاتہ ولا صفاتہ ولا في أفعالہ بحدوث الأکوان‘‘ [پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی ذات و صفات اور افعال میں کائنات کے حدوث سے متغیر نہیں ہوتی] صوفیہ وجودیہ نے جو تنزلاتِ خمسہ کے بارے میں اثبات کیا ہے، وہ مرتبہ وجوب میں تغیر و تبدل کی قسم سے نہیں ہے، کیونکہ وہ کفر و گمراہی ہے، بلکہ ان تنزلات کو حق تعالیٰ کے کمال کے ظہورات کے مراتب میں اعتبار کیا ہے بغیر اس بات کے کہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی تغیر و تبدل راہ پائے۔ 5۔ حق تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں غنی مطلق ہے اور کسی کام میں بھی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے، جس طرح وہ وجود میں محتاج نہیں ہے، اسی طرح ظہور میں بھی محتاج نہیں ہے۔ صوفیہ کی بعض عبارات سے جو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے اسما و صفات کے کمالات کے ظہور میں ہمارا محتاج ہے، یہ بات فقیر پر بہت گراں ہے، بلکہ یہ جانتا ہے کہ ان مخلوقات کی پیدایش سے مقصود خود ان کے اپنے کمالات کا حاصل ہونا ہے نہ کہ وہ کمال جو حق تعالیٰ و تقدس کی بارگاہ کی طرف عائد ہو سکے۔ آیتِ کریمہ: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾[الذریات: ۵۶] ’’أي لیعرفون‘‘ [اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ یعنی اپنی معرفت کے لیے] اسی مطلب کی تائید کرتی ہے، لہٰذا جن و انس کی پیدایش سے مقصود ان کو معرفت کا حصول عطا کرنا ہے جو ان کے لیے کمال ہے، نہ یہ کہ ایسا امر جو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف عائد ہو سکے۔ حدیثِ قدسی میں جو آیا ہے: (( فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأُعْرَفَ )) [1] [میں نے مخلوق کو اس لیے پیدا کیا ہے تا کہ میں پہچانا جاؤں] اس جگہ بھی ان کی اپنی معرفت مراد ہے نہ یہ کہ میں (حق تعالیٰ) معروف ہو جاؤں اور ان کی معرفت کے توسل سے کمال حاصل کروں۔ تعالیٰ اللّٰہ عن ذٰلک علوا
[1] ائمہ حدیث کے ہاں یہ حدیث ثابت نہیں ہے جس طرح کتبِ موضوعات کی طرف مراجعت سے ثابت ہوتا ہے۔ [مولف رحمہ اللہ] نیز دیکھیں: مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ (۱۸/۱۲۲) السلسلۃ الضعیفۃ (۱/۱۶۶)