کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 412
ممکن (بشر وغیرہ) کو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال کی حقیقت سے سوائے جہل و نادانی اور حیرت کے کچھ نصیب نہیں ہے۔ غیب پر ایمان لانا چاہیے اور جو کچھ مکشوف و مشہود ہو، اس کو ’’لَا‘‘ کی نفی کے تحت لانا چاہیے۔ عنقا شکار کس نشود دام باز چنیں کایں جا ہمیشہ باد بدست است دام را [(اٹھا لے جال) شکارِ عنقا محال ہے۔ بس یہاں جال کا یہی مآل ہے] حضرت ایشاں (خواجہ باقی باللہ رحمہ اللہ ) کی مثنوی کا ایک شعر اس مقام کے مناسب ہے: ہنوز ایوانِ استغنا بلند است مرا فکرِ رسیدن ناپسند است [ابھی تک بے نیازی کا محل بلند ہے۔ ابھی تک میرا وہاں پہنچنا مشکل ہے] ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام اشیا کو محیط ہے اور ان سے قریب اور ان کے ساتھ ہے، لیکن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ اس احاطے اور قرب و معیت کے معنی (و حقیقت) اس تعالیٰ کے ساتھ کیا ہیں؟ وہ ہم نہیں جانتے۔ اس کو احاطہ اور قرب علمی کہنا بھی تاویلات کے متشابہ سے ہے اور ہم اس تاویل کے قائل نہیں ہیں۔ 3۔ حق تعالیٰ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہے، اسی طرح کوئی چیز بھی اس کے ساتھ متحد نہیں ہو سکتی۔ بعض صوفیہ کی عبارات سے جو کچھ اتحاد کا مفہوم لیا جاتا ہے، وہ ان کی مراد کے خلاف ہے، کیونکہ ان کی مراد اُس کلام سے، جس سے اتحاد کا وہم ہوتا ہے: ’’إِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہُ‘‘ یہ ہے کہ جب فقر تمام ہو جائے اور نیستی محض حاصل ہو جائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا، نہ یہ کہ وہ فقیر خداے تعالیٰ کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے اور خدا بن جاتا ہے، کیونکہ یہ کفر اور زندقہ ہے۔ تعالیٰ اللّٰہ سبحانہ عما یتوھم الظالمون علوا کبیرا [اللہ تعالیٰ سبحانہٗ ظالموں کے وہم و گمان سے بہت بلند اور بڑا ہے] ہمارے حضرت خواجہ(باقی باللہ رحمہ اللہ) ۔قدس سرہ۔ فرمایا کرتے تھے کہ ’’انا الحق‘‘ سے یہ مراد نہیں ہے کہ ’’میں حق ہوں‘‘ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ’’میں نہیں ہوں، حق سبحانہٗ تعالیٰ ہی موجود ہے۔‘‘