کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 411
اشعری رحمہ اللہ چونکہ حق ۔جل سلطانہ۔ کے فعل کی حقیقت سے واقف نہ تھے، اس لیے تکوین کو حادث کہہ دیا اور اللہ تعالیٰ کے افعال کو بھی حادث جان لیا اور انھوں نے یہ نہیں جانا کہ یہ سب حق سبحانہ تعالیٰ کے فعلِ ازلی کے آثار ہیں نہ کہ اس کے افعال۔ اسی قبیل سے یہ ہے کہ بعض صوفیہ جنھوں نے افعال کی تجلی کا اثبات کیا ہے، اس مقام میں ممکنات کے افعال کے آئینے میں سوائے فعلِ واحد ۔جل سلطانہ۔ کے کچھ نہیں دیکھا، وہ تجلی حقیقت میں حق سبحانہ کے فعل کے آثار کی تجلی ہے نہ کہ اس کے فعل کی تجلی، کیونکہ اس کے فعل بے مثل اور قدیم ہیں اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، جس کو ’’تکوین‘‘ کہتے ہیں۔ محدثات کے آئینے میں اس کی گنجایش اور ممکنات کے مظاہر میں اس کا کوئی ظہور نہیں۔ درتنگنائے صورت معنی چگونہ گنجد در کُلبۂ گدایاں سلطان چہ کار دارد [صورت کے تنگ گھر میں معنی کہاں سے آئے۔ بھکاری کی جھونپڑی میں بادشاہ کیوں جائے؟] اس فقیر کے نزدیک افعال وصفات کی تجلی، ذات تعالیٰ و تقدس کی تجلی کے بغیر متصور نہیں ہے، کیونکہ افعال وصفات اس کی ذاتِ مقدس سے جدا نہیں ہیں، تا کہ ان کی تجلی ذات کی تجلی کے بغیر متصور ہو سکے۔ جو کچھ ذاتِ تعالیٰ و تقدس سے جدا ہے وہ اس کی صفات و افعال کے ظلال ہیں، لہٰذا ان کی تجلی افعال و صفات کے ظلال کی تجلی ہوئی نہ کہ افعال و صفات کی تجلی۔ لیکن ہر شخص کی سمجھ اس کمال تک نہیں پہنچ سکتی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾[الجمعۃ: ۴] [یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے اس کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے] 2۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول کرتا ہے نہ کوئی چیز اس میں حلول کر سکتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ تعالیٰ تمام اشیا کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے اور ان کے ساتھ قرب و معیت رکھتا ہے وہ احاطۂ قرب و معیت ایسا نہیں ہے جو ہماری فہم قاصر میں آ سکے، کیونکہ یہ اس کی جنابِ قدس کے شایانِ شان نہیں ہے۔ صوفیہ جو کچھ کشف و شہود سے معلوم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بھی منزہ ہے، کیونکہ