کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 405
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا ہے:
’’من تبع جنازۃ مبتدع لم یزل في سخط اللّٰہ حتی یرجع‘‘
[جس شخص نے کسی بدعتی کے جنازے میں شرکت کی تو وہ واپس لوٹنے تک اللہ تعالیٰ کے غصے میں ہوتا ہے]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبتدع پر لعنت کی ہے اور فرمایا ہے:
(( مَنْ أَحْدَثَ حَدَثاً أَوْ آویٰ مُحْدِثاً فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ الصَّرْفَ وَالْعَدْلَ )) [1]
[جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی، اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا فرض قبول کرے گا نہ نفل]
اس حدیث میں ’’صرف‘‘ سے مراد فریضہ اور ’’عدل‘‘ سے مراد نفل ہے۔ ابو ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إذا حدثت الرجل بالسنۃ فقال: دعنا من ھذا، وحدثنا بما فيالقرآن فاعلم أنہ ضال‘‘
[جب تم کسی شخص سے سنت وحدیث کی بات کرو تو وہ کہے: ہمیں اس سنت سے معاف ہی رکھو اور اس کے بجائے ہمیں وہ کچھ بیان کرو جو قرآن میں ہے تو جان لو کہ وہ شخص گمراہ ہے]
میں کہتا ہوں: صرف قرآن کو حجت سمجھنا اور سنت وحدیث کو نہ ماننا بدعتِ خوارج ہے۔ شیخ رحمہ اللہ کی اہلِ بدعت سے مراد بہتر (۷۲) گمراہ فرقے ہیں، چنانچہ بدعت کی مذمت پر مشتمل احادیث انھیں پر محمول ہیں۔ ان تمام فرقوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنمی قرار دیا ہے اور فرقۂ اہلِ سنت وجماعت کو ناجی کہا ہے۔ پھر اگر ان کی کوئی بدعت فرقہ ناجیہ میں پائی جائے تو اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرنا لازم ہے جو اہلِ بدعت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اسی لیے شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلِ بدعت کی چند ایک علامات ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں:
ایک علامت تو یہ ہے کہ وہ اہلِ اثر یعنی اصحابِ حدیث رحمہم اللہ کی بدگوئی کرتے ہیں۔ زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہلِ اثر رحمہم اللہ کا نام حشویہ رکھتے ہیں۔ اس سے ان کی مراد آثار یعنی احادیث کو
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۰۰۸)