کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 402
رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [الفتح: ۲۹] [محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے] سے مراد عشرہ مبشرہ ہیں۔ اہلِ سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی جھگڑے پر بات کرنے سے باز رہنا، ان کے نا پسندیدہ اعمال سے متعلق بات نہ کرنا، ان کے فضائل ومحاسن کا اظہار کرنا اور ان کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سونپنا واجب ہے۔ طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم میں جو اختلاف ہوا، اسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کریں، جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَآؤا مِنْم بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَؤفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [الحشر: ۱۰] [اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اور