کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 400
أصحاب الحدیث رحمہم اللّٰہ تعالیٰ‘‘
[ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یقینا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت واضح نص اور اشارے سے ثابت ہوتی ہے اور یہی مذہب امام حسن بصری رحمہ اللہ اور اصحاب الحدیث رحمہم اللہ کی ایک جماعت کا ہے]
عمر رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنایا تھا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس معاملے میں ان کی اطاعت کی اور ان کا نام امیر المومنین رکھا۔ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عثمان رضی اللہ عنہ پر اتفاق کیا اور سب سے پہلے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے بیعت کی۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے اور پھر بالاتفاق سب لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ وہ اپنی وفات تک خلیفہ برحق تھے، ان میں کوئی ایسا عیب نہیں تھا جو ان پر زبان درازی، فسق اور قتل کے اقدام کو جائز قرار دیتا ہو، روافض کے خلاف جوان کے بارے میں ایسا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کرے۔
پھر علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، ان کی خلافت بھی اتفاق اور صحابہ کے اجماع سے ہوئی۔
وہ بھی اپنی وفات تک خلیفہ برحق تھے۔ خوارج کے خلاف جو کہتے ہیں کہ ان کی امامت درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو برباد کرے۔
رہا علی رضی اللہ عنہ کا طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے قتال کرنا تو امام احمد رحمہ اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان مشاجرات سے، جو منازعت، منافرت اور خصومت کے باعث بنے، اپنی زبان کو روکنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس معاملے کو ان کے درمیان سے زائل کر دے گا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ﴾
[الحجر: ۴۷]
[اور ہم ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہے، نکال دیں گے، بھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے]
کیونکہ علی رضی اللہ عنہ اس قتال میں حق پر تھے اور ان کی امامت صحیح تھی۔ اہلِ حل وعقد کے ان کی امامت پر اتفاق کے بعد جس نے ان پر خروج کیا وہ باغی اور خارجی ہے، اس سے قتال کرنا جائز ہے۔