کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 399
فصاحت اور ہر بلیغ کی بلاغت سے متجاوز ہے۔ عرب اس طرح کا کلام لا سکے نہ ایک سورت ہی ایسی بنا سکے، حالانکہ وہ اپنے زمانے میں فصاحت وبلاغت میں سب سے زیادہ تھے۔ اسی لحاظ سے یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں معجزہ ٹھہرا، جیسے لاٹھی موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھی یا مردوں کو زندہ کرنا اور مادر زاد اندھے اور پھل بہری کے مریض کو شفا یاب کرنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کی بعثت جادو گروں کے دور میں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت حذاق اور ماہر اطبا کے زمانے میں ہوئی تھی۔ 23۔ اہلِ سنت کا ایک اعتقاد یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمام امتوں سے بہتر اور اہلِ قرون میں سے سب سے افضل ہے۔ ان میں سے اہلِ بیعت رضوان افضل اہلِ قرون ہیں، یہ ایک ہزار چار سو افراد تھے۔ پھر اہلِ بدر افضل ہیں، یہ اصحابِ طالوت کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ آدمی تھے۔ پھران میں سے چالیس اشخاص اہلِ دار خیزران، جو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے ساتھ پورے ہوئے، افضل ہیں۔ پھر ان چالیس میں سے عشرہ مبشرہ افضل ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں: خلفاے اربعہ، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد، سعید اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ۔ ان عشرہ مبشرہ میں سے خلفاے اربعہ خلفاے راشدین افضل ہیں۔ پھر ان چاروں میں سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ انہی چاروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیس برس تک خلافت کی، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ دو برس سے کچھ اوپر خلیفہ رہے، عمر رضی اللہ عنہ دس برس، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ برس اور علی رضی اللہ عنہ چھ برس تک خلیفہ رہے پھر انیس برس معاویہ رضی اللہ عنہ والی رہے، اس سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام پر والی بنایا تھا۔ ائمہ اربعہ کی یہ خلافت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختیار اور اصحاب رضی اللہ عنہم کے اتفاق ورضا سے ہوئی تھی اور اس وجہ سے بھی کہ ان میں سے ہر ایک اپنے زمانے میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل تھا۔ یہ تلوار اور جبر و قہر یا اپنے سے افضل سے خلافت چھین کر خلیفہ نہیں ہوئے تھے۔ شیخ جیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وقد روي عن إمامنا أحمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ أن خلافۃ أبي بکر ثبتت بالنص الجلي والإشارۃ، وھو مذہب الحسن البصري وجماعۃ من