کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 398
وہاں سے نکالے گئے۔ معتزلہ اس کے منکر ہیں۔ یہ معتزلہ جنت میں نہیں جائیں گے، بلکہ آگ میں رہیں گے، اس لیے کہ وہ اس کے منکر ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ مومن موحد جو ستر برس تک اللہ تعالیٰ کا مطیع رہا ہے، وہ ایک کبیرہ گناہ کے سبب جنت میں نہ جائے گا۔ کتاب و سنت ان کے عقیدے کو جھٹلاتے ہیں۔ الحاصل جنت اور جہنم اس وقت مخلوق اور موجود ہیں۔ جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت حور عین ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں پیدا کیا ہے۔ وہ بقا کے لیے ہیں، انھیں کبھی فنا نہ ہو گی۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں جب کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو حور عین میں سے اس کی زوجہ کہتی ہے: تجھے اللہ ہلاک کرے! اسے ایذا نہ پہنچاؤ، وہ تو تیرے پاس عارضی ہے، جلد ہی وہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جائے گا۔[1] پس جب جنت، جہنم اور ان میں جو کچھ ہے اس کو فنا نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کسی کو جنت سے نکالے گا، اہلِ جنت پرموت کو مسلط کرے گا اور نہ نعیمِ جنت کو زوال ہو گا، بلکہ ابد الآباد تک ہر دن اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور تمامِ نعمت یہ ہے کہ اللہ کے حکم سے موت اس فصیل پر ذبح کی جائے گی جو جنت اور جہنم کے درمیان ہے، جس طرح صحیح حدیث میں آ چکا ہے۔[2] 22۔ تمام اہلِ اسلام کا ایک اعتقاد یہ ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدالمرسلین اور خاتم النبیین ہیں اور تمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ معجزات ملے جو اور انبیا کو ملے تھے، بلکہ ان سے زیادہ۔ بعض اہلِ علم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزار معجزے شمار کیے ہیں۔ ان معجزات میں سے ایک قرآنِ منظوم ہے جو کلام عرب کے تمام اوزان کا مفارق ہے جس کی نظم وترتیب، بلاغت وفصاحت ایسی ہے کہ ہر فصیح کی
[1] ہت صاف اور درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں وقوف اولیٰ اور بہتر ہے، کیوں کہ کوئی نص صریح اس بارے میں نہیں آئی ہے جس کی بنیاد پر ہم اس بات کا قطعی حکم لگا سکیں کہ آدم علیہ السلام والی جنت وہی جنت المعاد ہے۔ اگرچہ اس قول کی بابت کوئی استبعاد نہیں ہے، کیونکہ جنت و نار موجود ہیں۔ اگر آدم علیہ السلام سی جنت سے نکالے گئے تو یہ بعید نہیں اور اگر کسی اور جنت سے ان کا اخراج ہوا جو جنت زمین پر تھی تو اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ]  سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۱۷۴) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۰۱۴) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۴۵۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۵۰)