کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 396
بِنَبِیِّکُمْ فَیُقْعَدُ بَیْنَ یَدَیْہِ عَلَی الْکُرْسِيِّ )) [1]
[جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ جبار اپنے عرش پر نزول فرمائے گا اور اس کے قدم کرسی پر ہوں گے اور تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر اس کے سامنے کرسی پر بٹھا دیا جائے گا]
امام حمیدی رحمہ اللہ سے کہا گیا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرسی پر ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے ہمراہ ہی ہوں گے؟ انھوں نے کہا: ہاں!
19۔ اہلِ سنت کا ایک عقیدہ یہ ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کا حساب لے گا اور اسے اپنے پاس بلائے گا اور اپنا بازو اس پر رکھے گا یہاں تک کہ وہ لوگوں سے چھپ جائے گا، پھر اس سے اپنے گناہوں کا اقرار کروائے گا، پھر فرمائے گا:
’’اے میرے بندے! میں نے تیرے ان گناہوں پر دنیا میں پردہ ڈالے رکھا اور آج کے دن میں تیرے وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔‘‘[2]
محاسبے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اس کی سیئات اور حسنات سب کچھ اسے دکھا کر اعمال کے ثواب و عذاب کی مقادیر سے آگاہ کرے گا۔ معطلہ نے محاسبے کا انکار کیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ان کی تکذیب کر رہا ہے:
﴿اِِنَّ اِِلَیْنَآ اِِیَابَھُمْ* ثُمَّ اِِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ﴾[الغاشیۃ: ۲۵۔۲۶]
[یقینا ہماری ہی طرف ان کا لوٹ کر آنا ہے۔ پھر بے شک ہمارے ہی ذمے ان کا حساب ہے]
20۔ اہلِ سنت کا ایک اعتقاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں میزان اور ترازو ہے جس میں وہ قیامت کے دن حسنات وسیئات کا وزن کرے گا۔ اس میزان کے دو پلڑے اور ایک زبان ہو گی۔ لیکن معتزلہ، مرجیہ اور خوارج اس کے منکر ہیں۔
ان کے نزدیک میزان سے مراد عدل ہے۔ حالانکہ کتاب و سنت میں ان کی تکذیب موجود ہے۔ یہ میزان رحمن کے ہاتھ میں یا جبریل علیہ السلام کے ہاتھ میں ہو گا۔ اس ترازو کے بانٹ رائی کے دانے اور ذرے کے برابر ہوں گے۔ حسنات کا پلڑا نور اور سیئات کا پلڑا ظلمت اور اندھیرا ہو گا۔ ارتفاع کی علامت ترازو کا ثقل اور انحطاط کی علامت اس کی خفت اور ہلکا ہونا ہے موازینِ دنیا کے
[1] دیکھیں: إبطال التأویلات لأبي یعلی (۴۵۲ وما بعدہ)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۶۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۵۱۴)