کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 395
انشاے خلق پر قدرت ہے اسے اعادۂ خلق پر بھی قدرت ہے، معطلہ نے اس کا انکار کیا ہے، اللہ تعالیٰ انھیں ہلاک کرے۔
15۔ اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ کبائر کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کرے گا، واجب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفاعت دخولِ نار سے پہلے تمام مومن امتوں کے حق میں حساب شروع کروانے کے لیے ہو گی اور دخولِ نار کے بعد اپنی امت کے لیے خاص ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور مومنوں کی شفاعت سے لوگ دوزخ سے نکلیں گے یہاں تک کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا اور جس نے ساری عمر میں ایک بار اللہ عزوجل کے لیے اخلاص کے ساتھ ’’لا إلہ إلا اللّٰہ ‘‘ کہا ہو گا، وہ جہنم میں باقی نہ رہے گا قدریہ اس کے منکر ہیں، حالانکہ کتاب اللہ اور سنتِ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کی تکذیب ہے۔
16۔ صراطِ جہنم پر ایمان لانا واجب ہے۔ یہ پل [صراط] بال سے زیادہ باریک، چنگاری سے زیادہ گرم اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا۔ اس کی لمبائی آخرت کے سالوں سے تین سو برس کی مسافت ہے یا آخرت کے سالوں سے تین ہزار برس کی راہ ہے۔
17۔ اہلِ سنت کا یہ اعتقاد ہے کہ قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حوض ہو گا جس سے کافر نہیں بلکہ مومن پانی پئیں گے۔ یہ حوض پل صراط عبور کرنے کے بعد اور جنت میں داخل ہونے سے پہلے ملے گا۔ اس کی چوڑائی ایک مہینے کی مسافت تک ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہو گا۔ اس حوض میں جنت سے، ایک چاندی کا اور ایک سونے کا، دو پرنالے بہتے ہیں۔
18۔ اہلِ سنت کا یہ اعتقاد ہے کہ قیامت کے دن اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا نہ کہ سارے انبیا ورسل کو، چنانچہ مقام محمود پر فائز کرنے سے اللہ تعالیٰ کا یہی تخت پر اپنے ہمراہ بٹھانا مراد ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(( وَعَدَ لِيْ رَبِّيْ الْقُعُوْدَ عَلَی الْعَرْشِ )) [1]
[میرے رب نے مجھے عرش پر بٹھانے کا وعدہ کیا ہے]
ایسے ہی عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ حجاج کے بیان کردہ الفاظ یہ ہیں:
(( إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ نَزَلَ الْجَبَّارُ عَلٰی عَرْشِہٖ وَقَدَمَاہُ عَلَی الْکُرْسِيِّ وَیُؤْتٰی
[1] دیکھیں: إبطال التأویلات لأبي یعلی (۴۵۲ وما بعدہ)