کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 392
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ کُلَّ صَانِعٍ وَ صَنْعَتَہٗ حَتّٰی خَلَقَ الْجَزَّارَ وَ جَزَارَتَہٗ )) [1] [یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر صانع اور اس کی صنعت کو پید اکیا ہے، حتی کہ اسی نے گوشت کاٹنے والے اور اس کے گوشت کاٹنے کے پیشے کو پیدا کیا ہے] 9۔ ہمارا ایک عقیدہ یہ ہے کہ اگرچہ مومن صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کامرتکب ہو، لیکن وہ کافر نہیں ہوتا ہے گو وہ دنیا سے توبہ کے بغیر چلا جائے، بشرطے کہ اس کی موت توحید خالص پر ہوئی ہو۔ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، چاہے اسے معاف کر دے اور جنت میں لے جائے اور چاہے تو اسے عذاب کرے اور آگ میں لے جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان دخل اندازی نہیں کرتے ہیں جس کے انجام سے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر نہیں دی ہے۔ 10۔ ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کسی کبیرہ گناہ کے سبب ایمان کے ہمراہ جہنم میں داخل کرے گا تو وہ ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے باہر نکال لے گا، کیونکہ اس کے حق میں آگ دنیا میں قید خانے کی مانند ہے، لہٰذا وہ اپنے کبیرہ گناہ اور اپنے جرم کی مقدار کے مطابق سزا پوری کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے باہر نکلے گا اور اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ آگ اس کے چہرے کو جھلسائے گی نہ اعضاے سجود ہی آگ میں جھلسیں گے، کیونکہ ایسا کرنا آگ پر حرام ہے۔ اس شخص کی اللہ تعالیٰ سے طمع، جب تک وہ آگ میں ہے، منقطع نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ دوزخ سے نکل کر جنت میں چلا جائے گا اور دنیا میں جو طاعت بجا لاتا تھا اس کی مقدار میں وہ جنت میں درجہ پائے گا۔ قدریہ کے بر خلاف کہ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ طاعات تباہ کرنے والا ہے، چنانچہ اسے ان کے نزدیک اس طاعت کا ثواب نہیں ملے گا، اور اسی طرح خوارج کا موقف ہے، اللہ تعالیٰ انھیں برباد کرے۔ 11۔ ہم اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ خیر وشر، میٹھا اور کڑوا تقدیر سے ہے۔ جو مصیبت بھی آئی وہ احتیاط کرنے سے چوکنے والی نہ تھی اور جو اسباب چوک گئے وہ طلب کرنے سے ملنے والے
[1] خلق أفعال العباد للبخاري (ص: ۷۳) مستدرک الحاکم (۱/۳۱) اس حدیث کے آخری الفاظ (( حَتّٰی خَلَقَ الْجَزَّارَ وَ جَزَارَتَہَ)) تو نہیں مل سکے البتہ اس روایت میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ (( إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ صَانِعَ الْخَزَمِ وَصَنْعَتَہُ )) نقل کیے ہیں۔ واللّٰہ اعلم