کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 391
الْمِسْکِیْنَ﴾[المدثر: ۴۲۔۴۴]
[تمھیں کس چیز نے سقر میں داخل کر دیا؟ وہ کہیں گے ہم نماز ادا کرنے والوں میں نہیں تھے۔ اور نہ ہم مسکین کو کھانا کھلاتے تھے]
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ ھٰذِہٖ النَّارُ الَّتِیْ کُنْتُمْ بِھَا تُکَذِّبُوْنَ﴾[الطور: ۱۴]
[یہی ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے]
مزیر فرمایا:
﴿ ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰکَ﴾[الحج: ۱۰]
[یہ اس کی وجہ سے ہے جو تیرے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا]
اس کے سوا بھی اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں۔ غرض کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جزا کو ان کے افعال پر معلق کیا ہے اور ان کے لیے کسب ثابت فرمایا ہے۔ برخلاف جہمیہ کے کہ وہ بندوں کے لیے کسب نہیں بتلاتے ہیں، بلکہ اسے دروازے کی مثل ٹھہراتے ہیں کہ اسے بند کیا اور کھولا یا جیسے درخت کہ وہ حرکت کرتا ہے۔ پس یہ لوگ حق کا انکار کرنے والے اور کتاب وسنت کو رد کرنے والے ہیں۔ قدریہ فرقے کے لوگ بندوں کو خالق افعال بتاتے ہیں۔ ان کے لیے ہلاکت ہو۔ یہ قدریہ اس امت کے مجوسی ہیں، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرائے اور اللہ تعالیٰ کو عجز کی طرف منسوب کیا، گویا اس کی بادشاہت میں وہ کام بھی ہوتے ہیں جو اس کی قدرت اور ارادے میں داخل نہیں ہیں۔ تعالیٰ اللہ عن ذلک علوا کبیرا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾[الصافات: ۹۶]
[حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو]
ایک جگہ اور فرمایا:
﴿جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾[السجدۃ: ۱۷]
[اس عمل کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے]
پس جب ان کے اعمال پر جزا واقع ہوئی تو ان کے اعمال و افعال بھی مخلوق ہوئے۔ سیدنا