کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 390
’’من زعم أنہ مؤمن فھو کافر‘‘[1]
[جس نے یہ گمان کیا کہ وہ یقینا مومن ہے تو وہ کافر ہے]
مومن کو چاہیے کہ وہ خائف، امید وار، مصلح، ڈرنے والا اور مترقب رہے۔ یہاں تک کہ جب اسے موت آئے تو وہ کسی عمل خیر پر ہو۔
8۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان بندوں کے کسب ہیں، وہ خیر یاشر، حسن یا قبیح اور طاعت یا معصیت کچھ بھی ہوں، لیکن اس معنی سے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے معصیت کا حکم کیا ہے، بلکہ اس معنی سے کہ وہ اس کی قضا وقدر ہے اور ایسا اس کے قصد سے ہوا ہے۔ اسی نے قسمت اور رزق بھی مقدر کیا ہے، کوئی شخص اس سے مانع نہیں ہو سکتا۔ اس کا زائد ناقص ہے نہ ناقص زائد، نہ ناعم خشن ہو اور نہ خشن ناعم، کل کا رزق آج کے دن کوئی نہیں کھا سکتا اور نہ زید کی قسمت عمرو کی طرف جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح رزقِ حلال دیتا ہے اسی طرح اس معنی میں رزقِ حرام بھی دیتا ہے کہ اسے بدن کی غذا اور جسم کا قوام کر دیتا ہے نہ اس معنی میں کہ اس نے حرام کو مباح کر دیا ہے۔ اسی طرح قاتل نے مقتول کی اجل مقدر کو منقطع نہیں کیا بلکہ وہ مقتول اپنی موت سے مرا۔ یہی حال غریق کا اور اس شخص کا ہے جو کسی دیوار کے نیچے دب کر مر گیا ہے یا کسی اونچی جگہ سے گر کر فوت ہوا ہے یا اسے کسی درندے نے کھا لیا ہے۔
اسی طرح مسلمانوں اور مومنوں کی ہدایت اور کافروں اور منافقوں کی گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ بادشاہت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ ہم نے بندے کو کاسب اس لیے کہا ہے کہ وہ توجہ، امرونہی اور خطاب کا محل ہے، لیکن وہ وعد وضمان کے سبب ثواب وعقاب کا استحقاق رکھتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾[السجدۃ: ۱۷]
[اس عمل کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے]
نیز فرمایا: ﴿بِمَا صَبَرْتُمْ﴾[الرعد: ۲۴] [اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا]
ایک جگہ جنتیوں کی جہنمیوں سے گفتگو کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ* قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ* وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ
[1] بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث (۱۷)