کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 388
عبداللہ بن امام احمد رحمہ اللہ نے اس تعداد سے زائد اسما کا ذکر بھی کیا ہے۔ ابو بکر نقاش نے ’’تفسیر الأسماء والصفات‘‘ میں امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: ’’إن للّٰہ ثلاث مائۃ وستین اسما‘‘ [بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے تین سو ساٹھ نام ہیں] بعض نے کہا ہے کہ ایک سو چودہ نام ہیں۔ یہ سب اس بات پر محمول ہے کہ انھوں نے قرآن پاک میں مکرر سہ کرر نام پائے اور ان سب کو اسما جانا۔ صحیح قول وہی ہے جو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے۔ انتھیٰ میں کہتا ہوں: ترمذی کی حدیث میں ننانوے نام مذکور ہیں اور وہی معتبر ہیں۔ [1] کتاب ’’الجوائز والصلات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات کے معانی ذکر کیے گئے ہیں جو لائقِ مطالعہ ہے۔ 6۔ ہمارا یہ اعتقادہے کہ ایمان قول باللسان، معرفت بالجنان اور عمل بالارکان ہے جو طاعت سے بڑھتا اور عصیان سے گھٹتا ہے، علم سے قوی ہوتا، جہل سے کمزور ہوتا ہے اور توفیق سے واقع ہوتا ہے۔ ایمان کی کمی بیشی پر کئی آیات واحادیث دلیل ہیں۔ عبد اللہ بن عباس، ابوہریرہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: ’’الإیمان یزید وینقص‘‘ [ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے] اشعریہ ایمان کی زیادتی اور نقصان کے منکر ہیں۔ لغت میں ایمان تصدیقِ قلب کے معنی میں ہے اور مصدق بہ کے ساتھ علم کو متضمن ہے۔ شریعت میں ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس میں ساری طاعات، واجبات، نوافل زلات ومعاصی سے اجتناب کے ساتھ ہوں۔ یہ کہنا بھی جائز ہے کہ ایمان دین، شریعت اور ملت کا نام ہے، کیونکہ دین محظورات ومحرمات سے اجتناب کے ساتھ طاعات سے عبارت ہے اور ایمان کی صفت ہے۔ رہا اسلام تو وہ من جملہ ایمان کے ہے، چنانچہ ہر ایمان اسلام ہوتا ہے اور ہر اسلام ایمان نہیں ہوتا، کیونکہ اسلام انقیاد واستسلام کے معنی میں ہے۔ ہر مومن اللہ تعالیٰ کا مستسلم اور منقاد ہوتا ہے اور ہر مسلم مومن باللہ نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ کبھی تلوار کے خوف سے اسلام لے آتا ہے۔ ایمان ایک ایسا نام ہے جو افعالاً واقوالاً بہت سے مسمیات کو شامل ہے، اس لیے وہ جمیع طاعات کو عام ہے۔ اسلام طمانیتِ قلب اور عباداتِ خمسہ کے ہمراہ شہادتین سے عبارت
[1] سنن الترمذي (۳۵۰۷) یہ روایت ’’ولید بن مسلم‘‘ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔