کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 387
اہلِ سنت کا یہی مذہب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ اِِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾[یٰسٓ: ۸۲] [اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے] لفظ ’’کن‘‘ دو حرف ہیں، اگر یہ مخلوق ہوتے تو دوسرے ’’کن‘‘ کے محتاج ہوتے جس سے تخلیق ممکن ہو اور یہ ایک لا متناہی سلسلہ چل نکلتا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے رسالے میں حروفِ ہجا کے قِدم کی صراحت کی ہے۔ یہ رسالہ انھوں نے اہلِ نیسا پور اور جرجان کی طرف لکھا تھا اور اس میں انھوں نے کہا ہے: ’’ومن قال: إن حروف التھجي محدثۃ فھو کافر باللّٰہ ، ومتی حکم إن ذلک مخلوق فقد جعل القرآن مخلوقا‘‘ [اور جس نے یہ کہا کہ یقینا حروف تہجی محدث ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے، اور جب اس نے یہ حکم لگایا کہ بلا شبہہ یہ مخلوق ہے تو اس نے قرآن کو مخلوق ٹھہرا دیا] امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’لا تقولوا بحدوث الحروف فإن الیھود أول ما ھلکت بھذا، ومن قال بحدوث حرف من الحروف فقد قال بحدوث القرآن‘‘ [حروف کو محدث نہ کہو، کیونکہ یہودی سب سے پہلے اسی کے قائل ہو کر ہلاک ہوئے تھے۔ جو شخص حروف میں سے کسی حرف کے حدوث کا قائل ہوا تو بلا شبہ وہ حدوثِ قرآن کا قائل ہوا] جب یہ بات قرآن میں ثابت ہوئی تو اسی طرح غیر قرآن میں بھی ثابت ہے۔ 5۔ ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انھیں حفظ کر لے گا وہ بہشت میں جائے گا۔ یہ بات بخاری وغیرہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مرفوعاً بیان ہوئی ہے۔ یہ سارے نام قرآن مجید کی سورتوں میں متفرق طور پر موجود ہیں، چنانچہ سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ نے ہر سورت سے نام بہ نام انھیں نکال کر بتایا ہے۔ ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں یہ نام مذکور ہیں۔[1]
[1] غنیۃ الطالبین (۱/۹۲)