کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 386
نے بات کی تو تم نے رب تعالیٰ کی آواز کو کس چیز کے مشابہ پایا؟ انھوں نے کہا: ’’شبہت صوت ربي بصوت الرعد حین لا یرتجع‘‘ [میں نے اپنے رب تعالیٰ کی آواز کو کڑک کی آواز کے ساتھ مشابہ پایا جب وہ پلٹتی نہیں] اس کے بعد شیخ جیلی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’وھذہ الآیات والأخبار تدل علی أن کلام اللّٰہ صوت لا کصوت الآدمیین۔۔۔ إلیٰ قولہ: وقد نص أحمد علی إثبات الصوت في روایۃ جماعۃ من الأصحاب رضی اللّٰه عنہم‘‘ [یہ آیات واخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ کا کلام آواز سے ہوتا ہے لیکن آدمیوں کی آواز کی مانند نہیں ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ایک جماعت کی روایت کے مطابق آواز کے ثبوت کی صراحت کی ہے] اشعریہ کے قول کے خلاف کہ اللہ کا کلام نفسی ہے: ’’و اللّٰہ حسیب کل مبتدع ضال مضل‘‘ [اور اللہ تعالیٰ ہر بدعتی، گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے والے کا حساب لینے والا ہے] الغرض اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے اور اس کا کلام امر، نہی اور استخبار کے سارے معانی کو محیط ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’کلام اللّٰہ تعالیٰ متواصل لا سکوت فیہ ولا صمت‘‘ [اللہ تعالیٰ کا کلام متواصل ہے اس میں سکوت وصمت نہیں ہے] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سکوت روا ہے؟ انھوں نے جواباً کہا: ’’لو ورد الخبر بأنہ سکت لقلنا بہ، ولکنا نقول أنہ متکلم کیف شاء بلا کیف ولا تشبیہ‘‘ [اگر کوئی حدیث وارد ہوتی کہ اس نے سکوت کیا ہے تو ہم اس کے قائل ہوتے، لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ بلا کیف اور بلا تشبیہ جیسے وہ چاہے متکلم ہے] 4۔ اسی طرح حروف معجم غیر مخلوق ہیں، خواہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہوں یا انسانوں کے کلام میں،