کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 384
ہے؟] تو اسے یہ کہو: ’’کیف صعد؟‘‘ [وہ کیسے چڑھتا ہے؟] فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے کہا: جب کوئی جہمی تم سے یہ کہے کہ ’’أنا کافر برب ینزل‘‘ [میں اس رب کا انکار کرتا ہوں جو نزول فرماتا ہے] تو تم یوں کہو: ’’أنا مؤمن برب یفعل ما یشائ‘‘ [میں اس رب پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے] 2۔ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کی کتاب، خطاب اور وحی ہے، جسے جبریل لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے تھے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام یہی قرآن مجید ہے، جو مخلوق نہیں ہے۔ یہ پڑھا جائے، تلاوت کیا جائے اور لکھا جائے۔ یہ متفرق طور پر اللہ تعالیٰ کی صفتِ ذات ہے یہ محدث ہے نہ مبدل، نہ مغیر نہ مؤلف نہ منقوص، مصنوع اور نہ مزاد فیہ ہے۔ یہ اسی کی طرف سے آیا ہے اور اسی کی طرف لوٹے گا۔ یہ حافظین کے سینوں میں، ناطقین کی زبانوں پر، کاتبین کے کف دست پر، ناظرین کے مشاہدے میں، اہلِ اسلام کے مصاحف میں اور بچوں کے الواح میں محفوظ ہے اور جہاں کہیں بھی ہے یہ مرئی اور موجود ہے۔ جو شخص یہ اعتقاد کرے کہ یہ کلام اللہ مخلوق ہے یا اس کی عبارت یا تلاوت غیر متلو ہے یا یوں کہے کہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ میرے الفاظ مخلوق ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو واجب القتل ہے، امام احمد رحمہ اللہ اسی طرف گئے ہیں۔ 3۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ قرآن مجید سمجھے جانے والے حروف اور سنی جانے والی آوازیں ہیں، کیونکہ انھیں سے گونگا اور خاموش آدمی متکلم اور ناطق ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام حروف اور اصوات سے منفک نہیں ہوتا، جو شخص اس کا انکار کرے وہ کور باطن اور مکابر حس ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’الم‘‘ ’’حم‘‘ ’’طسم‘‘ ’’تلک اٰیات الکتٰب‘‘ ان حروف کو ذکر کر کے کتاب ٹھہرایا اور فرمایا: ﴿مَا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ﴾[لقمان: ۲۷] [اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی] مزید فرمایا: ﴿لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ﴾[الکھف: ۱۰۹] [یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں] اور حدیث میں آیا ہے: (( لَا أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَ مِیْمٌ حَرْفٌ وَ لَامٌ حَرْفٌ )) [1]
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۹۱۰)