کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 382
صفت کے بغیر جس کو کوئی بیان کر سکے یا کوئی حد بندی کرنے والا اس کی حد بندی کرے] کعب احبار کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے: ’’أنا اللّٰہ فوق عبادي، وعرشي فوق جمیع خلقي، وأنا علی عرشي، علیہ أدبر عبادي ولا یخفی علي شییٔ من عبادي‘‘ [میں اللہ اپنے بندوں کے اوپر ہوں، میرا عرش میری ساری مخلوق کے اوپر ہے اور میں عرش کے اوپر ہوں، اس عرش پر سے میں اپنے بندوں کی تدبیر کرتا ہوں اور میرے بندوں سے کوئی چیز مجھ پر مخفی نہیں ہے] شیخ جیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کا عرش پر ہونا ہر آسمانی کتاب میں، جو کسی نبی مرسل پر اتری ہے، بلا کیف مذکور ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے علو، قدرت، استیلا اور ساری مخلوق پر، کیا عرش اور کیا غیر، غلبے کے ساتھ موصوف ہے۔ تو اب عرش پر استوا کو اس معنی پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ یہ استوا اس کی صفتِ ذات ہے، اس کے بعد کہ اس نے ہمیں اس امر کی خبر دی، سات آیات میں اسے موکد فرمایا اور یہ سنت ماثورہ میں بیان ہوئی۔ یہ صفت اس کو لازم اور اس کے شایان شان ہے جیسے وجہ، ید، عین، سمع، بصر، حیات، قدرت وغیرہ صفات ہیں یا جیسے وہ خالق، رازق، محي اور ممیت ہے اور ان صفات کے ساتھ موصوف ہے۔ ہم کسی طرح کتاب وسنت سے خروج نہیں کر سکتے ہیں، بلکہ آیت وخبر کو پڑھ کر ان پر ایمان لاتے ہیں اور صفات میں کیفیت کو علمِ الٰہی کے سپرد کرتے ہیں جیسا کہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’کما وصف اللّٰہ تعالیٰ نفسہ في کتابہ، فتفسیرہ قرائتہ، لا تفسیر لہ غیرھا، ولم نتکلف غیر ذلک فإنہ غیب لا مجال للعقل في إدراکہ، ونسأل اللّٰہ العفو والعافیۃ، ونعوذ بہ من أن نقول فیہ وفي صفاتہ ما لم یخبرنا بہ ھو أو رسولہ صلي اللّٰہ عليه وسلم ‘‘ [جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے نفس کے متعلق بیان کیا ہے، اس کی تفسیر صرف اس کی قرائت و تلاوت ہے، اس کے سوا اس کی تفسیر نہیں ہے اور نہ ہمیں اس کے سوا کا مکلف ہی ٹھہرایا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ وہ غیب ہے جس کے ادراک میں عقل کی کوئی مجال اور دخل نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں اور ہم اس