کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 381
میں ہے جیسا کہ اشعریہ کہتے ہیں، اور نہ استیلا اور غلبے کے معنی میں ہے جس طرح معتزلہ کہتے ہیں، کیونکہ یہ معنی شرع میں نہیں آئے ہیں اور نہ یہ معنی صحابہ وتابعین، سلف صالح اور اصحاب الحدیث میں سے کسی ایک سے منقول ہیں، بلکہ ان سے تو یہی حمل علی الاطلاق منقول ہے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے کہا ہے:
’’الاستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، والإقرار بہ واجب، و الجحود بہ کفر‘‘[1]
[استوا غیر مجہول ہے اور کیفیت ناقابل فہم ہے اور اس کا اقرار کرنا واجب ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے]
اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہی مضمون پایا جاتا ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے فوت ہونے سے پہلے کہا تھا:
’’أخبار الصفات تمر کما جائت بلا تشبیہ ولا تعطیل‘‘
[اخبارِ صفات کو اسی طرح تشبیہ اور تعطیل کے بغیر جاری کرنا چاہیے جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں]
ان سے دوسرے الفاظ یوں مروی ہیں کہ انھوں نے کہا:
’’لست بصاحب کلام، ولا أری الکلام في شییٔ من ھذہ الأماکن في کتاب اللّٰہ عزوجل أو حدیث عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو عن أصحابہ رضی اللّٰہ عنہم أو عن التابعین‘‘
[میں صاحب کلام نہیں ہوں اور نہ ان جگہوں یعنی اللہ عزوجل کی کتاب یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین عظام رحمہم اللہ کے کلام میں کوئی ایسی چیز میری نظر سے گزری ہے]
تیسرے مقام پر ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’نحن نؤمن بأن اللّٰہ عزوجل علی العرش کیف شائ، وکما شائ، بلا حد ولا صفۃ، یبلغھا واصف أو یحدہ حاد‘‘
[ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یقینا اللہ تعالیٰ عرش پر ہے جیسے اور جس طرح چاہے کسی قید اور
[1] الإبانۃ لابن بطۃ (۳/۱۶۳)