کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 380
دریاؤں کی تہ میں ہے اور ہر بال کی جڑ میں ہے۔ وہ ہر درخت اور ہر اگنے والی کھیتی کو جانتا ہے، نیز وہ ہر پتے کے گرنے کو جانتا ہے۔ وہ پتوں کی تعداد اور سنگریزے اور ریت کی گنتی کو جانتا ہے۔ وہ پہاڑوں کے وزن، دریاؤں کے ماپ، بندوں کے اعمال، ان کے اسرار وانفاس اور کلام کا علم رکھتا ہے۔ وہ ہر چیز کا عالم ہے، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ وہ خلق کی مشابہت سے پاک ہے، اس کے علم سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ اس کا وصف یوں بیان کرنا کہ وہ ہر جگہ ہے، جائز نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میں بالائے عرش ہے جس طرح اس نے خود ارشاد فرمایا ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا] نیز اس کا قول ہے: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾[الأعراف: ۵۴] [پھر وہ عرش پر بلند ہوا] مزید فرمایا: ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ﴾[الفاطر: ۱۰] [اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنیز کے مسلمان ہونے کا فیصلہ دیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا تھا: اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تھا۔[1] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ کَتَبَ کِتَاباً عَلٰی نَفْسِہٖ وَھُوَ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِيْ غَلَبَتْ غَضَبِيْ )) [2] [جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنے ذمے ایک تحریر لکھی اور وہ تحریر اس کے پاس عرش کے اوپر ہے، کہ یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہو گئی] تو اب لفظ ’’استوا‘‘ کا اطلاق کسی تاویل کے بغیر ہونا چاہیے۔ یہ ذات کا عرش پر استوا ہے نہ کہ قعود ومماست کے معنی میں جس طرح کہ مجسمہ اور کرامیہ کہتے ہیں، اور نہ یہ علو اور رفعت کے معنی
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۳۷) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۰۲۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۱)