کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 373
نہ ہو تو اسے یہ لائق نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ کرے، کیونکہ اس میں خدشہ ہے کہ وہ ایسے شک وشبہہ کا شکار ہو جائے گا جس سے ذہین وفطین آدمی کا بچنا بھی محال ہے، چہ جائے کہ ایک غیر فطین آدمی ہو، لیکن انسانی نفس کی شان یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں میں فضول بحثیں کرتا ہے اور ان میں خوض و بحث کرنے کو پسند کرتا ہے۔ اہلِ حق [صوفیہ] نے احادیثِ صفات کی تاویل کرنے کے وجوب پر اجماع کیا ہے، جیسے یہ حدیث ہے کہ ہمارا رب آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔ مگر اس میں کرامیہ مجسمہ اور حشویہ مشبہہ نے مخالفت کی ہے۔ انھوں نے اس کی تاویل کو نا روا کہا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے حق میں تشبیہ اور تکییف سے مستحیل وجہ پر محمول کیا ہے۔ حتی کہ ان میں سے ایک شخص منبر پر کھڑا تھا، پھر وہ ایک سیڑھی منبر سے نیچے اتر آیا اور کہا: تمھارا رب کرسی سے آسمانِ دنیا کی طرف اسی طرح نزول کرتا ہے جس طرح میں اپنے اس منبر سے ایک سیڑھی نیچے اترا ہوں۔ [1] یہ ایسی جہالت ہے جس سے بڑی کوئی جہالت نہیں ہو سکتی۔ یہ تمام لوگ کتاب وسنت اور عقلی دلائل کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ جب آیاتِ صفات تاویل پر حمل کرنے کی متعدد وجوہ ہیں تو شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے نزدیک ان میں سے راجح صورت کو اختیار کرنا واجب ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ﴾[الحشر: ۲] نیز اس کا ارشاد ہے: ﴿فَبَشِّرْ عِبَادِ* الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ﴾[الزمر: ۱۷۔۱۸] چنانچہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ وغیرہ اس طرف گئے ہیں کہ وہ تشبیہ اور تکییف کو ترک کر دے اور تاویل کی متعدد وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کی تعیین سے توقف کرے] میں کہتا ہوں: وجوبِ تاویل سے شعرانی رحمہ اللہ کی مراد تشبیہ اور تکییف کی نفی کرنا ہے نہ کہ کچھ
[1] یہ ائمہ سلف اور اہلِ حدیث پر اتہام ہے جس کی کوئی معتبر تاریخی دلیل نہیں۔ ابن بطوطہ نے یہ بات امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق لکھی ہے۔ (رحلۃ ابن بطوطۃ، ص:۶۸) لیکن یہ صریح بہتان ہے، کیوں کہ ابن بطوطہ کے دمشق میں داخل ہونے (جمعرات ۹ رمضان ۷۶۸ھ) سے پہلے ہی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (شعبان ۷۲۸) جیل میں قید کر دیے گئے تھے اور وہیں انھوں نے (۲۰ ذوالقعدہ ۷۲۸ھ) وفات پائی اور وفات سے پہلے انھیں جیل سے رہا نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا ابن بطوطہ نے انھیں مسجد میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کیسے دیکھ لیا تھا۔۔ ؟!