کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 372
میں کہتا ہوں: مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ نے مکتوبِ اعتقاد میں کئی جگہ شیخ ابن عربی پر انتقاد کیا ہے، جیسا کہ ابھی اس کا بیان ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مجدد کو شعرانی رحمہ اللہ کے کلام کی اطلاع نہیں ہوئی ورنہ وہ ان عقائد کو، جن پر انھوں نے انتقاد کیا ہے، ان کے ذمے لگاتے ہوئے سمجھ لیتے، و اللّٰہ أعلم۔
اس کے بعد شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وبالجملۃ فلا یحل مطالعۃ کتب التوحید الخاص إلا لعالم کامل أو من سلک طریق القوم وأما من لم یکن واحدا من ھٰذین الرجلین فلا ینبغي لہ مطالعۃ شییٔ من ذلک، خوفا علیہ من إدخال الشبہ التي لا یکاد الفطن یخرج منہا، فضلا عن غیر الفطن، ولکن من شأن النفس کثرۃ الفضول ومحبۃ الخوض فیما لا یعنیھا، وقد أجمع أہل الحق علی وجوب تأویل أحادیث الصفات کحدیث ینزل ربنا إلی سماء الدنیا، وخالف في ذلک الکرامیۃ المجسمۃ والحشویۃ المشبھۃ فمنعوا تأویلہا، وحملوھا علی الوجہ المستحیل في حقہ تعالیٰ من التشبیہ والتکییف، حتی أن بعضہم کان علی المنبر فنزل درجاً منہ، وقال: ینزل ربکم عن کرسیہ إلی سماء الدنیا کنزولي من منبري ھذا، وھذا جھل لیس فوقہ جھل، وکل ھؤلاء محجوجون بالکتاب والسنۃ ودلائل العقول، و إذا تعددت وجوہ الحمل لآیات الصفات وجب الأخذ بالوجہ الراجح عند الشیخ أبي الحسن الأشعري لقولہ تعالیٰ: فاعتبروا یا أولي الأبصار، ولقولہ تعالیٰ فبشر عباد الذین یستمعون القول فیتبعون أحسنہ، وذھب سفیان الثوري والأوزاعي وغیرھما إلی أنہ یطرح التشبیہ والتکییف، و یقف عن تعیین وجہ من وجوہ التأویل‘‘ انتھیٰ۔ [1]
[بالجملہ توحید خاص کی کتابوں کا مطالعہ کرنا صرف اسی شخص کے لیے حلال ہے جو کامل عالم ہے یا جو قوم [صوفیہ] کے طریقے پر چلا ہے، لیکن جو شخص ان دو قسم کے آدمیوں میں سے
[1] لطائف المنن والأخلاق (ص: ۳۹۴)