کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 371
’’إجماع المحققین علی أن من شرط الکامل أن لا یکون عندہ شطح عن ظاہر الشریعۃ أبدا بل یری أن من الواجب علیہ أن یحق الحق ویبطل الباطل ویعمل علی الخروج من خلاف العلماء ما أمکن‘‘ انتھیٰ بلفظہ۔
[محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ کامل ولی کی شرط میں سے ہے کہ اس کے اقوال ظاہر شریعت سے کبھی ہٹے ہوئے نہ ہوں، بلکہ اس کا نظریہ یہ ہو کہ اس پر واجب ہے کہ وہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرے اور جہاں تک ممکن ہو سکے، علما کے اختلاف سے نکل جائے]
امام شعرانی رحمہ اللہ نے ’’منن کبری‘‘ میں مذکورہ بالا عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’ومن تأملہ وفھمہ عرف أن جمیع المواضع التي فیھا شطح في کتبہ مدسوسۃ علیہ، لاسیما کتاب الفتوحات المکیۃ فإنہ وضعہ في حال کمالہ بیقین وقد فرغ منہ قبل موتہ نحو ثلاث سنین، وبقرینۃ ما قالہ في الفتوحات المکیۃ في مواضع کثیرۃ من أن الشطح کلہ رعونۃ نفس لا یصدر قط من محقق، وبقرینۃ قولہ أیضاً في مواضع من أراد أن لا یضل فلا یرم میزان الشریعۃ من یدہ طرفۃ عین بل یستصحبہا لیلا ونھارا عند کل قول وفعل واعتقاد۔‘‘ انتھی۔ [1]
[جس نے اس پر غور کیا اور اسے سمجھا تو اس نے پہچان لیا کہ ان کی کتابوں میں وہ تمام جگہیں جہاں پر خلاف حق اقوال موجود ہیں، دراصل وہ باتیں ان کے ذمے لگائی گئی ہیں، خاص طور پر کتاب ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ یقینا انھوں نے اپنے کمال کی حالت میں یقین کے ساتھ وہ کتاب لکھی اور اپنی موت سے تقریباً تین سال پہلے اسے تحریر کر کے فارغ ہوئے اور اس قرینے کے ساتھ جو انھوں نے فتوحات مکیہ میں کئی ایک جگہوں پر لکھا ہے کہ خلاف حق باتیں سب رعونت ہیں، جو کسی محقق سے کبھی صادر نہیں ہو سکتیں۔ نیز کئی جگہ ان کے اس قول کے قرینے کے ساتھ کہ جو شخص گمراہ نہیں ہونا چاہتا تو وہ پلک جھپکنے کے وقت بھی شریعت کا میزان اپنے ہاتھ سے نہ گرائے، بلکہ دن رات ہر قول، فعل اور اعتقاد کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھے]
[1] لطائف المنن والأخلاق (ص: ۳۹۰)