کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 37
کی طبیعتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک وہ شخص ہے جو پورے کا پورا ایک ہی شخص کی ملکیت میں ہے۔ کیا وہ دونوں ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بہت سے لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ایک رب کے بندے ہیں اور جو کئی ارباب کے بندے ہیں۔ اس مثال سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موحد و مشرک برابر نہیں ہوتے۔ شفاعت کا سب سے بڑا مستحق اور اس سے بہرہ مند وہ شخص ہو گا جس کے حق میں اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دے گا اور یہ وہ صاحبِ توحید ہو گا جس نے اللہ کے سوا کسی کو اپنا شفیع نہیں بنایا ہو گا۔ وہ شفاعت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، وہ وہی شفاعت ہے جو صرف اللہ کے حکم سے صادر ہو گی۔ جس شفاعت کی اللہ تعالیٰ نے نفی فرما دی ہے، یہ وہ شرکیہ شفاعت ہے جو ان مشرکوں کے دلوں میں ہے جنھوں نے اللہ کے سوا اور سفارشی بنائے ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ شفاعت کا معاملہ ان کے قصد و گمان کے خلاف ہو گا، جبکہ موحد لوگ شفاعت سے بہرہ مند ہوں گے۔ موحد ہی سب سے زیادہ شفاعت کا مستحق ہے: اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کرنا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: (( مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ؟ قَالَ: أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِيْ مَنْ قَالَ: لَا إِ لٰہَ إِلَّا اللّٰہُ )) [1] [اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں میں کون سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کی سعادت حاصل کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں میں سے سب سے زیادہ میری شفاعت کا مستحق اور اس سے سعادت مند ہونے والا وہ شخص ہے جس نے ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ پڑھا] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصولِ شفاعت کے اسباب میں سے توحید کو سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ مشرکین کا تصورِ شفاعت اور اس کا رد: یہ تصورِ شفاعت اس تصور کا عکس ہے جو مشرکوں نے بنا رکھا ہے۔ ان کے نزدیک شفاعت
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۹۹)