کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 369
کے سوا کوئی فاعل نہیں ہے اور نہ کوئی موجود بذات خود ہے مگر وہی ایک۔ اللہ تعالیٰ ہی نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو پیدا کیا۔ اس سے اس کے فعل کا سوال نہیں کیا جاتا، بلکہ یہی مخلوق جواب دہ ہے۔ حجت بالغہ اسی اللہ کے لیے ہے، وہ چاہے تو تم سب کو صحیح راہ پر لگا دے۔ فصل میں نے جس طرح اللہ تعالیٰ، فرشتوں، اس کی ساری مخلوق اور تمھیں اپنے نفس پر اپنی توحید کا گواہ ٹھہرایا ہے، اسی طرح میں اللہ تعالیٰ، ملائکہ، ساری مخلوق اور تم کو اپنے نفس پر اپنی توحید اور اللہ تعالیٰ کے مصطفی مختار اور مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا گواہ بناتا ہوں۔ وہ ہمارے سید اور مولی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کی طرف بشیر، نذیر، اپنے اذن سے داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا تھا وہ انھوں نے پہنچا دیا، امانت ادا کر دی، امت کی خیر خواہی کی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر کھڑے ہو کر سارے حاضرین متبعین کو خطبہ سنایا، تذکیر فرمائی اور تحذیر کی، وعد ووعید پہنچائے، اس تذکیر کے ساتھ کسی کو خاص نہیں کیا اور یہ تذکیر اللہ احمد وصمد کے اذن سے تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ )) [سنو کیا میں نے (پیغامِ الٰہی) پہنچا دیا؟] سب نے کہا: ہاں! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ )) [1] [اے اللہ! گواہ رہنا] میں ایمان لایا اس پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں، خواہ وہ مجھے معلوم ہے یا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو [تعلیمات] لائے، ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ موت اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک اجل مسمی ہے جب آتی ہے تو وہ دیر نہیں کرتی۔ پس میرا اس پر ایمان ہے، اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے، جس طرح میں اس بات پر بھی ایمان لایا ہوں اور میں نے اقرار کیا ہے کہ منکر و نکیر کا سوال حق ہے، عذابِ قبر حق ہے، جسموں کا قبروں سے اٹھایا جانا حق ہے، اللہ تعالیٰ کے پاس پیش ہونا حق ہے، جنت حق ہے، آگ حق ہے، میزان حق ہے، حوض حق ہے، اعمال کے صحیفوں کا اڑنا حق ہے، صراط حق ہے، ایک فریق کا جنت میں اور ایک فریق کا دوزخ میں جانا حق ہے۔ اس دن ایک گروہ پر کرب حق ہے، ایک گروہ کو فزع اکبر کے حزن میں نہ ڈالنا حق ہے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۲۲۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۷۹)