کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 368
کامل اور بدیع بنایا۔ اس کے ملک میں کوئی شریک یا اس کے امر میں کوئی مدبر نہیں ہے۔ اگر انعام کرے اور نعمت دے تو یہ اس کا فضل ہے اور اگر نہ مانے اور عذاب کرے تو یہ اس کا عدل ہے۔ اس کے ملک میں کسی غیر کا کچھ تصرف نہیں ہے کہ اسے جور اور حیف کی طرف منسوب کریں۔ نہ اس پر کسی کا حکم چلتا ہے کہ وہ خوف میں مبتلا ٹھہرے، جو کچھ اس کے سوا ہے وہ زیر سلطان قہر خدا ہے اور اسی کے ارادہ وامر سے متصرف ہے۔ لوگوں کے اندر تقویٰ وفجور کا الہام کرنے والا وہی ہے۔ پھر جس کی سیئات اور گناہوں سے چاہے درگزر فرمائے اور جسے چاہے، اس دنیا میں یا قیامت کے دن، پکڑے۔ اس کا عدل اس کے فضل میں حکم کرے اور نہ اس کا فضل اس کے عدل میں حکمران ہو۔ عالم کو دو ہاتھوں میں نکالا اور ان کے لیے دو مرتبے رکھے، فرمایا: (( ھٰؤُلَائِ فِيْ الْجَنَّۃِ وَلَا أُبَالِيْ وَھٰؤُلَائِ فِيْ النَّارِ وَلَا أُبَالِيْ )) [1] [یہ لوگ جنت میں ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں اور یہ لوگ آگ میں ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں] کسی معترض نے اس وقت کوئی اعتراض نہ کیا، کیونکہ اس وقت وہاں کوئی موجود نہ تھا، خود وہی موجود تھا، چنانچہ تمام لوگ اسماے الٰہی کی تصریف کے نیچے ہیں۔ ایک مٹھی زیر بلا ہے اور دوسری مٹھی زیر اسما ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا کہ سارا جہاں سعادت مند ہو تو ایسا ہی ہوتا اور اگر چاہتا کہ تمام عالم بدبخت ہو تو ویسا ہی ہوتا، یہ سب اس کی شان تھی لیکن اس نے اس طرح نہ چاہا، بلکہ اس طرح ہوا جو اس نے چاہا کہ یہاں اور آخرت میں کوئی بدبخت ہے اور کوئی خوش نصیب۔ اب اس کے حکم کو بدلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، چنانچہ فرمایا کہ یہ پانچ نمازیں پچاس نمازوں کے برابر ہیں: ﴿ مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ﴾[قٓ: ۲۹] [میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور میں بندوں پر ہرگز کوئی ظلم ڈھانے والا نہیں] کیونکہ ملک میں میرا ہی تصرف ہے اور میری ہی مشیت جاری ہے، اس کی حقیقت سے سر اور دل کی آنکھیں اندھی ہیں، افکار وضمائر کا اس پر گزر نہیں ہوتا، مگر وہبِ الٰہی اور جودِ رحمانی کے سبب جس بندے پر اس کی عنایت ہوتی ہے حضرت شہادت میں جس کے لیے یہ امر سابق ہو چکا ہے اسی کو یہ موہبت ملتی ہے۔ جس وقت الوہیت نے یہ تقسیم کی تھی، اس کو یہ معلوم تھا کہ یہ دقائق قدیم ہیں، اس
[1] مسند أحمد (۴/۱۸۶) صحیح ابن حبان (۲/۵۰)