کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 364
ملائکہ، انبیا اور روحانیین جو اس وقت حاضر ہیں یا جو کوئی اس وقت میری بات کو سنتا ہے، ان سب کو اس بات پر گواہ بنا لیا ہے کہ میں بطور جزم اپنے دل سے یہ کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ واحد ہے، کوئی اس کا ثانی نہیں ہے۔ وہ بیوی اور اولاد سے منزہ ہے۔ وہ مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ بادشاہ ہے، کوئی اس کا وزیر نہیں ہے۔ وہ صانع ہے اس کے ساتھ کوئی مدبر نہیں ہے۔ اپنی ذات سے موجود ہے۔ وہ کسی موجد کا، جو اسے ایجاد کرے، محتاج نہیں ہے، بلکہ ہر موجود جو اس کے سوا ہے، وہ اپنے وجود میں اس کا محتاج ہے۔ غرض کہ سارا جہاں اللہ کے سبب سے موجود ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا آغاز ہے نہ اس کی بقا کا انجام، بلکہ اس کی ہستی استمراری، دائمی اور مطلق ہے۔ وہ اپنے نفس سے قائم ہے نہ جوہر متحیز کہ اس کے لیے مکان کا اندازہ کیا جائے، نہ عرض ہے کہ اس پر بقا محال ٹھہرے، نہ جسم ہے کہ اس کے لیے کوئی جہت ہو۔[1] وہ تو جہات واقطار سے مقدس ہے۔ دلوں اور آنکھوں سے دنیا و آخرت میں دکھائی دینے والا ہے۔ وہ، جیسے اس کا فرمان ہے اور اس فرمان سے جس معنی کا اس نے ارادہ کیا ہے، عرش پر مستوی ہے۔ جس طرح کہ عرش اور جس کو وہ حاوی ہے، دنیا اور آخرت اس کے ساتھ مستوی ہے۔ اسی کے لیے ہے۔ اس کے لیے نہ کوئی مثل معقول ہے اور نہ عقول اس پر دلیل ہیں۔ اسے زمانہ محدود نہیں کر سکتا ہے اور نہ مکان اسے اپنے اندر لے سکتا ہے، بلکہ وہ تھا اور مکان نہ تھا، وہ اب بھی اسی حالت پر ہے جس پر وہ پہلے تھا، یعنی اب بھی وہ جوں کا توں ہے، اسی نے تمکن اور مکان پیدا کیا، زمان کو بنایا اور کہا میں وہ واحد حی ہوں جسے مخلوقات کی حفاظت نہیں تھکاتی ہے اور نہ مخلوقات کی کوئی ایسی صفت ہی اس کی طرف رجوع کرتی ہے جس پر وہ نہ تھا، وہ اس سے برتر ہے کہ اس میں حوادث حلول کریں یا وہ حوادث میں حال ہو یا حوادث اس سے پہلے ہوں یا وہ بعد حوادث کے ہو، بلکہ وہ تھا اور
[1] یہ وہی الفاظ ہیں جو متکلمین نے اہلِ فلسفہ کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے باری تعالیٰ کی تنزیہ کے لیے تراشے ہیں۔ اگرچہ ان کا مضمون شریعت کے مخالف نہیں، لیکن یہ الفاظ شرع میں نہیں آئے۔ کیا ان الفاظ کے بغیر تقدیسِ باری تعالیٰ ممکن نہیں ہے یا ان الفاظ کا استعمال کرنا قرآن وحدیث کی کسی دلیل سے ثابت ہے؟ یہ درست ہے کہ جہت وتلقا کا لفظ شریعت میں وارد نہیں ہوا، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ استوا، علو اور فوق کتاب عزیز کی نصوص کے ساتھ اللہ علی واعلی تعالیٰ شانہ کے لیے ثابت ہے۔ ایسی نفی سے تو مذکورہ صفات کی نفی ہی متبادر ہوتی ہے، لہٰذا ایسے الفاظ کا ذکر نہ کرنا ہی اولیٰ اور احوط ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ [مولف رحمہ اللہ ]