کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 362
ان کے نزدیک حج کی استطاعت امکان ہے، وہ کسی وجہ سے کیوں نہ ہوں۔ یہ لوگ صرف زاد وراحلہ کو شرط قرار دیتے ہیں۔ ابن عطا رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ استطاعت دو طرح پر ہے: حال اور مال، جسے حال نہ اٹھائے تو اس کا مال اسے پہنچا دے گا۔ 29۔ پیشے، تجارتیں اور کھیتی باڑی وغیرہ جنھیں شریعت نے مباح کیا ہے، ان مکاسب کی اباحت پر ان کا اجماع ہے، لیکن شبہات سے تیقظ اور تحرز کے ساتھ۔ا ور یہ کوئی پیشہ اس لیے کرے کہ عمل پر مدد ملے، طمع کا مادہ قطع ہو، غیر کو فائدہ پہنچے اور ہمسایہ پر مہربانی کرے۔ ان کے نزدیک یہ پیشہ کرنا اس شخص کے لیے واجب ہے جس کا فرض نفقہ اور خرچ اس کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ امام جنید رحمہ اللہ کہتے ہیں: کسب اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا ایک عمل ہے، پس جس قدر نوافل میں مشغول ہونا مندوب ہے اتنا ہی اس میں شغل کرے۔ یہ نہ سمجھے کہ جلبِ رزق اور جرِمنفعت فقط اسی میں ہے۔ اکیلے آدمی پر کسب کرنا مباح ہے، اس پر واجب نہیں ہے اور نہ یہ دین میں توکل کے منافی ہے، مگر وظائفِ حق کے ساتھ اشتغال اولیٰ اور احق ہے اور صحتِ توکل اور اللہ پر وثوق کے وقت اس سے اعراض اوجب ہے۔ سہل نے کہا: توکل والے محض اتباع سنت کے لیے کسب کرتے ہیں اور غیر متوکل تعاون کے لیے کرتے ہیں۔ صاحبِ تعرف فرماتے ہیں: اہل تصوف کے یہی معتبر اور صحیح عقائد ہیں جو ہم نے ان کی کتابوں میں دیکھے ہیں اور ان کے اصول و مذاہب کو جاننے والے ثقات سے سنے ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ العلي العظیم۔ ٭٭٭