کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 360
والا ہے، اور جس نے اقرار وتصدیق کے باوجود اعمال میں تقصیر اور کوتاہی کی تو جائز ہے کہ اسے عذاب تو ہو مگر وہ عذاب میں ہمیشہ مبتلا نہ رہے۔ لہٰذا وہ خلود سے تو امن میں ہے لیکن عذاب سے مامون نہیں ہے، تو اس کا امن ناقص اور غیر کامل ہوا۔ جو شخص یہ سب کچھ بجا لایا اس کا امن تام اور غیر ناقص ہے، اس لیے یہ بات اصل ٹھہری کہ امن کا نقصان ایمان کے نقصان کے سبب ہوا اور امن کا تمام ایمان کے تمام سے ہوا۔ واجب سے کوتاہی کرنے والے کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ ضعیف الایمان ہے، چنانچہ دل سے منکر کا انکار کرنے والے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإیْمَانِ )) [1] [یہ سب سے کمزور ایمان ہے] معلوم ہوا کہ ظاہر کے ایمان کے بغیر باطن کا ایمان ضعیف اور کمزور ہوتا ہے۔ کسی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کو کامل ٹھہرایا ہے، جیسے: (( أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إیْمَاناً أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا )) [2] [مومنوں میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سے اخلاق میں اچھا اور بہتر ہے] چنانچہ اخلاق ظاہر وباطن دونوں میں ہوتے ہیں، لہٰذا جو سب کو عام ہے اسے کمال کے ساتھ متصف کیا ہے اور جو سب کو عام نہیں ہے، اسے ضعف کے ساتھ متصف کیا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ایمان کی کمی بیشی عین کی طرف سے نہیں ہے بلکہ جہت کی طرف سے ہے جو حسن اور قوت سے زیادتی ہوتی ہے اور ان کی کمی سے ایمان کا نقصان ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں میں تو بہت کامل ہوتے ہیں اور عورتیں صرف چار ہی کامل ہوئی ہیں۔ مگر ساری عورتیں اصل کے اعتبار سے ناقص نہیں ہیں بلکہ صفت کی طرف سے ناقص ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عقل ودین میں ناقص فرمایا ہے۔ بعض کبارنے کہا ہے کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یہ زیادہ ہوتا ہے نہ کم، انبیا کی طرف سے زیادہ ہوتا ہے نہ کم اور غیر انبیا کی طرف سے زیادہ اور کم دونوں ہوتے ہیں۔ 25۔ ایمان کے چار ارکان ہیں: 1۔توحید بلا حد 2۔ذکر بلابت یعنی قطع 3۔حال بلا نعت، 4۔وجد بلا وقت۔ حال بلا نعت کے یہ معنی ہیں کہ جس حال رفیع کو بیان کرے اس کے ساتھ موصوف ہو۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۹) [2] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۶۸۲) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۱۶۲)