کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 359
القدر کیوں نہ ہو۔ انبیا سے لغزشوں کا ہونا ثابت ہے، خواہ وہ بطریق تاویل وخطا ہوں یا سہو وغفلت، لیکن وہ ایسے صغائر ہوتے ہیں جن کے ساتھ توبہ ہوتی ہے نہ کہ کبائر، کیونکہ وہ سب کبائر سے معصوم ہیں۔ 23۔ اولیا سے کرامات ظاہر ہوتی ہیں یہ بات قرآن وحدیث دونوں سے ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی ان کا ظہور ہوا ہے۔ جب اولیا سے کوئی کرامت صادر ہوتی ہے تو ان کا تذلل، خضوع، خشیت اور استکانت بڑھ جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے اجر وثواب میں اضافہ کرتا ہے۔ غرض کہ انبیا کے لیے معجزات ہوتے ہیں اولیا کے لیے کرامات اور اعدا کے لیے مخادعات۔ اولیا کو اپنی کرامت کا علم نہیں ہوتا ہے، جب کہ انبیا کو معجزے کا پہلے سے علم ہوتا ہے، کیونکہ اولیا غیر معصوم اور انبیا معصوم ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ ولی کو اپنا ولی ہونا معلوم نہیں ہو سکتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ وہ اس امر سے شناسا ہو، یہ جائز ہے۔ ظاہری حلیے اور غیر عادی امور سے ولایت کا اعلام نہیں ہوتا ہے، لیکن یہ اعلام سرائر میں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ 24۔ جمہور صوفیہ کے نزدیک ایمان قول، عمل اور نیت کا نام ہے۔ نیت کے معنی تصدیق ہیں۔ اصل ایمان یہی تصدیق قلب کے ہمراہ زبان کا اقرار ہے اور اس کی فرع عمل بالارکان ہے۔ ایمان ظاہر وباطن میں ایک چیز ہے اور وہ دل ہے اور ظاہر میں مختلف اشیا ہیں۔ اس پر اجماع ہے کہ ایمان کا ظاہراً وجوب اس کے باطناً وجوب کی مانند ہے اور وہ اقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا گھٹتا ہے۔ ائمہ جنید وسہل نے کہا ہے کہ تصدیق بڑھتی ہے، گھٹتی نہیں ہے، اگر وہ گھٹے تو پھر بندہ ایمان سے نکل جائے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اخبار ومواعید کی تصدیق ہے جس میں ادنا شک کفر ہوتا ہے اور ایمان کی زیادتی قوت ویقین کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہاں زبان کا اقرار نہ بڑھے نہ گھٹے، جب کہ عمل بالارکان زائد اور ناقص ہوتا ہے۔ فائدہ: بعض نے کہا ہے کہ جس مومن نے اقرار کیا، تصدیق کی، فرائض بجالایا اور منہیات سے باز رہا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے امن میں ہے اور جس نے یہ سب کچھ نہ کیا، وہ آگ میں ہمیشہ رہنے