کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 357
بغیر شقاوت سبقت کر چکی ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( ھٰؤُلَائِ فِيْ الْجَنَّۃِ وَلَا أُبَالِيْ وَھٰؤُلَائِ فِيْ النَّارِ وَلَا أُبَالِيْ )) [1]
[یہ لوگ جنت میں ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں اور یہ لوگ آگ میں ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں]
بندوں کے اعمال اس لکھے ہوئے پر علامات اور امارات ہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِعْمَلُوْا، فَکُلٌّ مُّیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ )) [2]
[عمل کرتے رہو، ہر ایک کو، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے، میسر کر دیا جاتا ہے]
اس کے ساتھ ساتھ صوفیہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ اعمال پر ثواب دیتا اور عقاب کرتا ہے، کیونکہ اس نے عملِ صالح پر وعدہ اور عمل خطا پر وعید فرمائی ہے، چنانچہ وہ وعدہ پورا کرتا ہے اور وعید کو ثابت کرتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی خبر میں صادق ہے۔
18۔ ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ پر دلیل وہ خود ہے۔ رہی عقل تو وہ ایسی بات ہے کہ عاقل اپنی حاجت میں دلیل کی طرف راہ نکالتا ہے، کیونکہ وہ محدث ہے اور محدث دلیل نہیں ہوتا مگر اپنی مثل پر۔ ابن عطا رحمہ اللہ نے کہا ہے: عامۃ الناس نے اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق سے پہچانا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ اِِلَی الْاِِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ﴾[الغاشیۃ: ۱۷] [تو کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے] ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ﴾[النساء: ۸۲] [تو کیا وہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے]، ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا﴾[الأعراف: ۱۸۰] [اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو] انبیا نے خود اسے اس کی ذات سے پہچانا ہے، فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ اَمْرِنَا﴾[الشوریٰ: ۵۲] [اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی] ہاں! اللہ تعالیٰ کو صرف عقل والا ہی پہچانتا ہے، اس لیے کہ عقل بندے کے لیے ایک ایسا آلہ ہے جس سے وہ اشیا کی شناخت کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ معرفت کیا چیز ہے تو جنید رحمہ اللہ نے کہا: ’’ھي وجود جھلک عن قیام علمہ‘‘ [وہ اس کے علم کے قیام سے تیرے جہل کا وجود ہے] معلوم ہوا کہ معرفت اور علم میں فرق ہے۔
[1] مسند أحمد (۴/۱۸۶) صحیح ابن حبان (۲/۵۰)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۶۲) صحیح مسلم (۶/۲۶۴۷)