کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 356
ارفع منازل کو کیوں نہ پہنچ گیا ہو، بہر حال بندے کے لیے کوئی ایسا مقام نہیں ہے جس مقام میں آکر اس سے آدابِ شریعت ساقط ہو جائیں، وہ محظور کو مباح اور حرام کو حلال کر بیٹھے، یا کسی حلال کو حرام یا کسی فرض کو بغیر عذر و علت کے ساقط سمجھ لے۔ عذر وعلت وہی ہے جس پر مسلمانوں نے اجماع کیا ہے اور جس کے ساتھ احکامِ شریعت وارد ہوئے ہیں۔ جو شخص اعلی رتبہ اور اشرف مقام والا ہوتا ہے وہی اجتہاد میں شدید تر، عمل میں مخلص تر اور بہت زیادہ پرہیز گار ہوا کرتا ہے۔
16۔ اس پر اجماع ہے کہ افعال نہ سببِ سعادت ہیں اور نہ سببِ شقاوت۔ بندوں کی سعادت و شقاوت مشیتِ الٰہی کے ساتھ پہلے سے لکھی جا چکی ہے، جس طرح کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں آیا ہے:
(( ہٰذَا کِتَابٌ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِینَ فِیہِ أَسْمَائُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَأَسْمَائُ آبَائِہِمْ وَقَبَائِلِہِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلٰی آخِرِہِمْ فَلَا یُزَادُ فِیہِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْہُمْ أَبَدًا )) [1]
[یہ کتاب رَبُّ الْعَالَمِینَ کی طرف سے ہے اور اس میں اہلِ جنت کے نام ہیں پھر ان کے آبا و اجداد اور ان کے قبیلوں کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں میزان ہے، پھر ان میں نہ کمی ہوگی اور نہ زیادتی ہوگی]
اس طرح اہلِ نار کے حق میں فرمایا اور ارشاد کیا ہے:
(( اَلسَّعِیْدُ مَنْ سَعِدَ فِيْ بَطْنِ أُمِّہٖ وَ الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِيْ بَطْنِ أُمِّہٖ )) [2]
[خوش نصیب تو وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ ہی میں خوش نصیب ہو اور بد بخت ہے وہ جو اپنی ماں کے پیٹ میں بد بخت ہو]
بندوں کے یہ اعمال استحقاق کے اعتبار سے موجب ثواب وعقاب نہیں ہیں، بلکہ یہ عدل کے سبب سے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل ایجاب کے سبب سے ہے۔
17۔ جنت کی نعمتیں اس کے لیے ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علت کے بغیر جنت لکھی جا چکی ہے اور آگ کا عذاب اس کے لیے ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علت کے
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۱۴۱)
[2] (( اَلسَّعِیْدُ مَنْ سَعِدَ فِيْ بَطْنِ أُمِّہ )) کے الفاظ ’’المعجم الأوسط‘‘ (۸/۲۲۳) میں ہیں اور (( اَلشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِيْ بَطْنِ أُمِّہٖ )) کے الفاظ صحیح مسلم میں (۲۶۴۵) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہیں۔