کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 353
تک اس علت کے لیے بھی کوئی اور علت درکار ہوتی اور یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام ظلم ہے نہ جور اور نہ اس کی کوئی چیز قبیح ہے۔ اشیا کا حسن و قبح اسی کی طرف سے ہے۔ 13۔ صوفیہ کا اس پر اجماع ہے کہ وعید مطلق طور پر کفار کے حق میں ہے اور وعد مطلق طور پر محسنین کے حق میں ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی صورت میں صغیرہ گناہوں کی بخشش واجب ہے اور بعض نے کہا ہے کہ صغائر عقوبت کے جواز میں کبائر کی طرح ہیں اور کبائر کی بخشش کو مشیت وشفاعت پر رکھا ہے، نیز وہ اہلِ صلات کا آگ سے خروج واجب بتاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آیتِ کریمہ: ﴿ اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا﴾[النسائ: ۳۱] [اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچو گے جن سے تمھیں منع کیاجاتا ہے تو ہم تم سے تمھاری چھوٹی برائیاں دور کر دیں گے اور تمھیں با عزت داخلے کی جگہ میں داخل کریں گے] کے معنی یہ ہیں کہ بندہ کفر وشرک سے بچے، کیوں کہ اس کفر وشرک کی کئی انواع ہیں اس لیے ان پر اسم جمع کا اطلاق جائز ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خطاب جمع کی صورت میں آیا ہے، اس لیے ہر ایک کا کبیرہ گناہ مل کر جمع ہو جاتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ [النسائ: ۴۸] [بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا] مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مشیت کو شرک کے علاوہ کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ ان کا اجمالی قول یہ ہے کہ مومن خوف ورجا کے درمیان ہے، چنانچہ وہ اللہ کے فضل سے کبیرہ گناہوں کی بخشش کا امیدوار ہے اور صغیرہ گناہوں کی عقوبت میں اللہ تعالیٰ کے عدل سے ڈرتا ہے، کیونکہ مغفرت مشیت کے ضمن میں ہے اور صغیرہ وکبیرہ گناہ کی شرط مشیت کے ساتھ نہیں آئی ہے، جس نے شرائطِ توبہ اور ارتکابِ صغائر میں تشدید و تغلیظ کی ہے تو وہ کوئی ایجابِ وعید کی وجہ سے نہیں کی ہے، بلکہ حقِ الٰہی میں