کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 351
اور ابو خزاز کا یہی قول ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ دیکھا تھا۔ کسی نے کہا ہے کہ دل سے دیکھا تھا۔ جن صوفیہ نے یہ کہا کہ ہم نے اسے دنیا میں دیکھا، جملہ مشائخ نے ان کی تضلیل کی اور ان کے دعوے کی تکذیب فرمائی۔ خزازنے اس کے انکار میں ایک کتاب اور جنید نے اس کی تکذیب میں چند رسالے تحریر کیے ہیں۔
7۔ سارے صوفیہ کا اجماع ہے کہ اللہ عزوجل بندوں کے افعال کا خالق ہے۔ بندے خیر وشر جو کچھ بھی کرتے ہیں، سب اللہ کی قضا و قدر اور مشیت وارادے سے ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر وہ بندے کب ہوں گے اور مربوب ومخلوق کس طرح ٹھہریں گے۔
8۔ استطاعت کے بارے میں صوفیہ کا قول یہ ہے کہ بندہ کوئی سانس نہیں لیتا، نہ کوئی پلک مارتا ہے اور نہ کوئی حرکت کرتا ہے مگر اس قوت کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ ان میں پیدا کرتا ہے۔ اس استطاعت کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ ان بندوں کے افعال کے ہمسر ان کے لیے پیدا کر دیتا ہے نہ وہ متقدم ہوں نہ متاخر اور فعل اسی استطاعت سے پایا جاتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت پر ہوں کہ جو چاہیں سو کریں، جو چاہیں سو حکم دیں اور اللہ تعالیٰ حقیر، ضعیف اور فقیر بندے کی نسبت قوی، عزیز اور قدیر نہ ہو، کیونکہ اس کا ارشاد ہے: ﴿یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ﴾[آل عمران: ۴۰] [اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے]
9۔ ان کا اس پر بھی اجماع ہے کہ بندوں کے لیے سچ مچ افعال اور اکتساب ہے جس پر انھیں ثواب ملتا ہے یا عذاب ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان پر امرو نہی آئی اور وعد و وعید وارد ہوئی۔ اکتساب کے یہی معنی ہیں کہ وہ قوت محدثہ کے ساتھ فعل کو سر انجام دیتے ہیں یا ان کا فعل منفعت حاصل کرنے یا دفع ضرر کے لیے ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ﴾[البقرۃ: ۲۸۶]
[اسی کے لیے ہے جو اس نے (نیکی) کمائی اور اسی پر ہے جو اس نے (گناہ) کمایا]
10۔ بندے اپنے اکتساب میں مختار و مرید ہیں نہ کہ محمول و مجبور و مکرہ۔ مومن نے ایمان اختیار کیا، اسے پسند کیا، اسے اچھا جانا، اپنے ارادے سے ایمان کو کفر پر اختیار کیا، کفر کو مکروہ اور برا جانا اور اسے اختیار نہ کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: