کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 350
[الانعام: ۱۹] [تاکہ میں تمھیں اس کے ساتھ ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے] جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والے قرآن کے ساتھ مامور ومخاطب ہیں حالانکہ ہم ابھی تک مخلوق نہیں ہوئے اور نہ ہم موجود تھے۔ جمہور صوفیہ کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اللہ کا کلام حرف، صوت اور ہجا نہیں ہے، بلکہ حروف و کلام کے اصوات آلات ہیں اور یہ آلات جوارح، لہوات، ہونٹ اور زبانیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اعضا والا ہے نہ کسی آلے کا محتاج، اس لیے اس کا کلام حرف و صوت نہیں ہے۔ لیکن صوفیہ کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اللہ کا کلام حرف و صوت ہے۔[1] ان کا یہ اعتقاد ہے کہ کلام کی شناخت اسی طرح ہوتی ہے، حالانکہ وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ کلام اللہ تعالیٰ کی ایک ذاتی صفت ہے اور غیر مخلوق ہے۔ یہ حارث محاسبی اور متاخرین میں سے ابن سالم کا قول ہے۔ 5۔ اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آخرت میں آنکھوں سے دیدار ہو گا، چنانچہ مومن اسے دیکھیں گے نہ کہ کافر، یہ اللہ کی طرف سے کرامت ہے، کیونکہ اس کا ارشاد ہے: ﴿ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ﴾[یونس: ۲۶] [جن لوگوں نے نیکی کی، انہی کے لیے نہایت اچھا بدلہ اور کچھ زیادہ ہے] صوفیہ رویتِ باری تعالیٰ کو عقلاً جائز اور سمعاً واجب کہتے ہیں۔ اس کے متعلق مشہور اور متواتر خبریں آئی ہیں، اسی لیے اس کا قائل ہونا، اس پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا واجب ہے۔ 6۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ان آنکھوں اور دلوں سے دکھائی نہیں دیتا ہے مگر ایقان کی راہ سے، کیونکہ یہ غایت کرامت اور افضل نعمت ہے۔ اب جائز نہیں کہ وہ دکھائی دے مگر افضل مکان میں ورنہ پھر دنیاے فانی اور آخرتِ باقیہ میں کیا فرق رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ رویت آخرت میں ہو گی، یہ خبر نہیں دی کہ دنیا میں ہو گی۔ اس لیے جتنی اس نے خبر دی ہے اسی تک رکنا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں تو جمہور اور کبار صوفیہ یہ کہتے ہیں کہ اس آنکھ سے نہیں دیکھا، چنانچہ جنید، نوری
[1] صوفیہ کا یہی دوسرا قول کتاب و سنت کے مطابق ہے نہ کہ قولِ اول۔ جب ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾وارد ہے تو تشبیہ کا امکان ہی نہیں رہتا، لہٰذا تاویل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ]