کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 348
[وہی سب سے پہلے ہے اور سب سے پیچھے ہے اور ظاہر ہے اور چھپا ہوا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے] ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے] یہ توحید کا بیان تھا۔ 2۔ اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات حقیقی ہیں اور وہ ان کے ساتھ موصوف ہے جیسے علم، قدرت، قوت، عز، حلم، حکمت، کبریا، جبروت، حیات، قدم، ارادہ، مشیت اور کلام۔ یہ صفات اسی طرح اجسام ہیں اور نہ اعراض وجواہر جس طرح اس کی ذات جسم، عرض اور جوہر نہیں ہے۔ وہ سچ مچ سمع، بصر، وجہ، ید رکھتا ہے لیکن وہ اسماع، ابصار، ایدی اور وجود کے مثل نہیں ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں نہ کہ جوارح، اعضا اور اجزا۔ یہ ساری صفات عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات۔[1] اثباتِ صفات کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ وہ ان کا محتاج ہے یا وہ اشیا کو ان کے ذریعے سے کرتا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان صفات کے اضداد اس سے منفی ہیں، یہ صفات فی نفسہا ثابت ہیں اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ علم کے معنی فقط جہل کی نفی کرنے کے نہیں ہیں اور نہ قوت کے معنی فقط عجز کی نفی کے ہیں، بلکہ اثباتِ علم وقدرت کے ہیں۔ اگر وہ جہل کی نفی سے عالم اور عجز کی نفی سے قوی ہوتا تو جمادات جہل وعجز کی نفی کے سبب عالم وقادر ہوتے۔ اسی طرح اس کی باقی صفات کا بھی یہی حال ہے۔ ہمارا اللہ تعالیٰ کو ان صفات کے ساتھ بیان کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا وصف نہیں ہے، بلکہ ہمارا یہ وصف خود ہماری صفت ہے اور اس صفت کا بیان ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ جو شخص اپنے وصف کرنے کو اللہ کی صفت ٹھہراتا ہے بغیر اس کے کہ وہ سچ مچ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی صفت ثابت کرے تو وہ در حقیقت اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے وصف کے بغیر کرتا
[1] احوط یہی ہے کہ اس قسم کے مسائل میں سرے سے غور ہی نہ کرے۔ اس جگہ اجمالی ایمان ہی اولیٰ ہے۔ جس صفت یا اسم کی تفصیل شارع نے ہم کو نہیں بتائی، ہمیں اس میں خوض کرنے اور بال کی کھال اتارنے کا حق نہیں پہنچتا، کیونکہ ایسے مقام پر مغالطے کا خوف ہوتا ہے۔ اجمال میں امید ہے اور تفصیل میں خوف۔ [مولف رحمہ اللہ ]