کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 347
اس میں آفات حلول کریں۔ نہ اسے اونگھ اور نیند آئے نہ وہ تداول اوقات میں آئے۔ نہ اشارات اسے معین کریں نہ کوئی مکان اس پر حاوی ہو اور نہ زمان اس پر جاری ہو، نہ اس کو چھونا ہے اور نہ عزلت، نہ وہ اماکن میں حلول کرے اور نہ افکار اس کا احاطہ کر سکیں، نہ استار اسے حجاب میں لے سکیں اور نہ ابصار اسے پا سکیں۔ بعض بڑے لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے پہلے کچھ نہیں اور نہ اس کے بعد کچھ ہے، اس کی ابتدا ہے نہ انتہا، نہ ’’مِنْ‘‘ اسے مصادر نہ ’’عَنْ‘‘ موافق، نہ ’’إِلٰی‘‘ اسے ملاصق بنے نہ ’’فِيْ‘‘ اس میں حلول کرے، نہ ’’إِذْ‘‘ اس کی توقیت کرے نہ ’’اِنْ‘‘ اسے موامر ہو، نہ ’’فوق‘‘ اس پر سایہ گستر ہو نہ تحت اسے اٹھائے، نہ ’’حذا‘‘ اسے مقابل ہو نہ ’’عند‘‘ اسے مزاحم، نہ ’’خلف‘‘ اسے پکڑے نہ ’’اَمام‘‘ اسے محدود کرے، نہ ’’قبل‘‘ اسے ظاہر کرے نہ ’’بعد‘‘ اسے فنا کرے، نہ ’’کل‘‘ اسے فراہم کرے نہ ’’کَانَ‘‘ اس کا موجد ہو، نہ ’’لیس‘‘ اس کا فاقد نہ خفا اسے مستور رکھے، اس کا قدم ہر حدث پر متقدم ہے۔ اس کا وجود عدم سے پیشتر ہے۔ اگر تو’’متیٰ‘‘ کہے تو اس کا ہونا وقت پر سابق ہو چکا ہے اور اگر توقبل کہے تو قبل اس کے بعد ہے، اگر تو ہو کہے تو ھاء اور واؤ اس کی مخلوق ہے اور اگر ’’کیف‘‘ کہے تو اس کی ذات وصف سے حجاب میں ہے۔ اگر ’’اَیْن‘‘ کہے تو اس کا وجود مکان پر متقدم ہے اور اگر ’’ما ھو‘‘ کہے تو اس کی ماہیت ساری اشیا سے بائن ہے۔ اس کے غیر کے لیے ایک وقت میں دو صفات کا اجتماع ممکن نہیں ہے اور نہ کسی دوسری صفاتِ تضاد جمع ہونی ممکن ہیں۔ وہ اپنے ظہور میں باطن اور اپنے استتار میں ظاہر ہے۔ غرض کہ وہ ظاہر، باطن، قریب اور بعید ہے۔ کیوں کہ یہ بات ممتنع ہے کہ وہ خلق سے مشابہ ہو۔ اس کا فعل مباشرت کے بغیر ہوتا ہے اور اس کی طرف سے تفہیم ملاقات کے بغیر ہے اور اس کی ہدایت کسی ایما کے بغیر ہے۔ نہ ہمتیں اس سے منازعت کریں، نہ افکار اسے مخالط ہوں۔ نہ اس کی ذات کے لیے تکییف ہے اور نہ اس کے فعل کے لیے تکلیف۔ اس پر اجماع ہے کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتی ہیں اور نہ ظنون اس پر ہجوم کر سکتے ہیں۔ نہ اس کی صفات متغیر ہیں اور نہ اس کے اسما متبدل۔ وہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا: ﴿ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾[الحدید: ۳]