کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 342
حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک سے راضی نہیں ہے، اگرچہ وہ شرک اس کے ارادے ہی سے ہوتا ہے۔ جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، اہلِ حدیث ان کی تصدیق کرتے ہیں، جیسے یہ حدیث کہ یقینا اللہ تعالیٰ ہر رات، رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟[1] الحدیث۔ وہ ہر اختلاف اور نزاع میں قرآن وحدیث سے تمسک کرتے ہیں، جس طرح کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾[النسائ: ۵۹]
[پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ]
وہ ائمہ دین اور سلف صالحین کے اتباع کو مانتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے اذن نہیں دیا ہے اپنے دین میں اس کا اتباع نہ کریں۔ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے آنے کا اقرار کرتے ہیں جس طرح اس نے فرمایا ہے:
﴿وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا﴾[الفجر: ۲۲]
[اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے]
وہ جس طرح چاہتا ہے اپنی مخلوق کے نزدیک ہوتا ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾[قٓ: ۱۶]
[اور ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں]
وہ عید، جمعہ اور جماعت کو ہر نیک وبد امام کے پیچھے ثابت کرتے ہیں۔ نیز وہ سفر وحضر میں موزوں پر مسح کو ثابت کرتے ہیں۔ وہ مشرکین کے ساتھ جہاد کو ثابت کرتے ہیں، اس وقت سے لے کر جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور جب تک مسلمانوں کی ایک جماعت دجال سے لڑے گی اور اس کے بعد قیامِ قیامت تک اسے ثابت کرتے ہیں۔
متفرق عقائد:
اہلِ حدیث اس بات کے معتقد ہیں کہ مسلمانوں کے لیے دعاے صلاح کی جائے اور ان پر تلوار لے کر خروج نہ کریں اور فتنے میں نہ لڑیں۔ دجال کا نکلنا سچ جانیں۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آ کر
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۰۹۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۵۸)