کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 340
اس کی مٹھی میں ہوں گے۔ وہ اپنا قدم آگ میں رکھ دے گا، تب آگ کے اجزا آپس میں لپٹ سمٹ جائیں گے۔ وہ لوگوں کی ایک جماعت کو اپنے ہاتھ سے آگ میں سے نکالے گا۔ بہشت والے اس کے چہرے کی طرف دیکھیں گے، وہ ان کی آؤ بھگت کرے گا، ان کے لیے تجلی فرمائے گا، یقینا اللہ تعالیٰ آنکھوں سے نظر آئے گا جس طرح چودھویں کا چاند دکھائی دیتا ہے، اسے سب مومن دیکھیں گے نہ کہ کافر، کیونکہ اللہ تعالیٰ کفار سے اوٹ میں ہو گا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ کَلَّآ اِِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ﴾[المطففین: ۱۵] [ہر گز نہیں، بے شک وہ اس دن یقینا اپنے رب سے حجاب میں ہوں گے] یقینا موسیٰ علیہ السلام نے دنیا میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رویت کا سوال کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی تو وہ پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات بتلائی کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں دکھائی نہیں دیتا ہے، بلکہ آخرت میں نظر آئے گا۔ کلامِ الٰہی: قیامت کے دن بندے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جائیں گے تو وہ خود ان کے حساب کا متولی ہو گا کوئی دوسرا محاسب نہیں ہو گا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ تکلم کیا ہے، وہ مخلوق نہیں ہے، جس نے یہ گمان کیا کہ قرآن مجید مخلوق ہے وہ جہمی اور کافر ہے اور جس نے کلام کا اقرار کر کے مخلوق نہ ہونے میں توقف کیا وہ پہلے سے بھی زیادہ خبیث ہے۔ جس نے یہ گمان کیا کہ کلام تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے مگر ہماری تلاوت و قرائت مخلوق ہے وہ جہمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور اپنے ہاتھ سے انھیں تورات عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے۔ خواب: خواب اللہ کی طرف سے سچی وحی ہوتی ہے۔ صاحبِ خواب اپنے پاکیزہ خواب میں کچھ دیکھے، کسی عالم سے وہ خواب بیان کرے، اگر وہ عالم اسے سچا سمجھے، صحیح طور پر کسی تحریف کے بغیر اس کی تاویل وتعبیر بیان کرے تو ایسے خواب کی تعبیر سچی ہوتی ہے۔ پیغمبروں کے خواب وحی تھے۔ جو شخص خواب پر طعن کرتا ہے اور اس کا گمان یہ ہے کہ خواب کوئی چیز نہیں ہے تو اس سے زیادہ اور کون جاہل ہو گا؟ خود قرآن میں خواب کا ذکر اور اس کی تعبیر بیان ہوئی ہے اور سنتِ صحیحہ سے ثابت ہے۔ جو شخص